میاں زاہد حسین

افراط زر سے تنخواہ دار طبقہ بہت بری طرح پس رہا ہے،میاں زاہد حسین

کراچی (عکس آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے انفلیشن 35 فیصد اور فوڈ انفلیشن 47 فیصد کو چھو رہا ہے اس لئے قابل ٹیکس آمدنی کی حد کو ایک لاکھ سے بڑھا کر 2 لاکھ کیا جائے۔ تنخواہ دار طبقہ ملکی معیشت میں انتہائی اہم کردارادا کرتا ہے جو اس وقت افراط زرکی وجہ سے بری طرح پس رہا ہے جسے ریلیف دیا جائے۔

تاجر، صنعتکار، برآمد کنندگان اورکاشتکاروں کے مفادات کی حفاظت کے لئے مضبوط لابیاں موجود ہیں مگر تنخواہ دارجن کی تعداد لاکھوں میں ہے اورجو ڈائریکٹ ٹیکس ادا کرتے ہیں ان کے لئے کوئی آواز اٹھانے والا موجود نہیں ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جس ملک میں زراعت اور ریٹیلرز ٹیکس ادا کرنا پسند نہیں کرتے وہاں تنخواہ دار طبقے سے بھاری ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جبکہ بعض تنخواہ داروں سے پینتیس فیصد تک ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔

درمیانہ درجے کے پروفیشنلزسے پچیس سے تیس فیصد تک ٹیکس وصول کیا جاتا ہے جبکہ اس میں جنرل سیلز ٹیکس پٹرولیم لیوی اوردیگراخراجات جمع کر دئیے جائیں تو یہ ٹیکس پچاس فیصد سے بھی تجاوز کرجاتا ہے۔ بزنس مین اپنے اخراجات میں اضافے کا بوجھ عوام پرمنتقل کردیتے ہیں یا ملازموں کی تعداد میں کمی کر دیتے ہیں جبکہ تنخواہ داروں کواپنے اخراجات کم کرنے کے لئے ایسی کوئی سہولت میسرنہیں ہے۔

میاں زاہد حسین نیمزید کہا کہ عرب ممالک میں ہنرمندوں اور پروفیشلنز کوپاکستان سے چھ گنا تک زیادہ تنخواہ ملتی ہے اس لئے اب یہ لوگ ریکارڈ تعداد ملک سے باہر نوکریاں تلاش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی بیرون ملک سے ترسیلات زر میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن دوسری طرف اس سے ٹیکس کے نقصان کیعلاوہ صنعتوں اوردیگرکاروباری شعبوں کے لئے افرادی قوت کی عدم دستیابی کا مسئلہ سنگین ہو سکتا ہے جس کے تدارک کے لیے ہمیں معیاری تربیتی اداروں میں اضافے کی ضرورت ہے۔ عرب ممالک سمیت تمام امیرممالک نے انسانی وسائل کو ترقی دینے کی اہمیت سمجھ کرترقی کی ہے جبکہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے اس طرف خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں