گندم کے کاشتکاروں

محکمہ زراعت کی گندم کے کاشتکاروں کو بہتر پیداوار کے حصول کیلئے اہم ہدایات جاری

اوکاڑہ (عکس آن لائن) ترجمان محکمہ زراعت پنجاب نے کہا ہے کہ گندم کی فصل کو تیسرا پانی بوائی کے 125 تا 130 دن بعد بارش اور موسمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے لگائیں۔

یہ وہ وقت ہوتا ہے جب سٹے میں دانے بننے اور بھرنے کا مرحلہ ہوتا ہے اس لئے اگر اس موقع پر گندم کی فصل کو پانی نہ دیا جائے تو دانے کا سائز چھوٹا رہ جاتا ہے اور پیداوار میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ امسال گندم کی فصل پر کنگی کا حملہ مختلف اضلاع میں مشاہدہ میں آیا ہے۔ یہ مرض پھپھوندی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ زرد کُنگی کا حملہ پتوں پر ہوتا ہے اور انتہائی حملے کی صورت میں سٹے بھی متاثر ہوتے ہیں۔

پودے کے پتوں پر زرد رنگ کے چھوٹے چھوٹے دھبے متوازی قطاروں میں پاؤڈر کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔ بھوری کنگی کا حملہ عام طور پر پودے کے نچلے پتوں سے شروع ہوتا ہے جس کی وجہ سے پتے کے اوپر بھورے رنگ کا زنگ نما پاؤڈر دکھائی دیتا ہے جبکہ سیاہ کنگی کے حملہ میں پتوں اور تنوں پر بیضوی دھبے نمودار ہوتے ہیں جو کہ شروع میں بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ کنگی کا حملہ سب سے پہلے کھیت سے کچھ حصے ٹکڑیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر وہاں سے پورے کھیت میں بیماری پھیل جاتی ہے۔ کنگی کے ظاہر ہوتے ہی صرف متاثرہ حصے پر محکمہ زراعت کے مقامی عملے کے مشورہ سے مناسب پھپھوندی کُش زہر لگائیں تاکہ بیماری پھیل نہ سکے۔ اس موسم میں گندم کی فصل پر سست تیلے کا حملہ بھی ہو سکتا ہے اس لئے اس کے مربوط انسداد کیلئے کاشتکار اپنی فصل کا باقاعدگی سے معائنہ کریں ۔

یاد رہے سست تیلے کا حملہ گندم کی فصل پر ٹکڑیوں کی شکل میں ہوتا ہے لہٰذا جیسے ہی اس کا حملہ نظر آئے متاثرہ کھیت کے حصوں میں پودوں کو رسی سے ہلا کر تیلے کو نیچے گرا لیں۔ کھالوں اور کھیتوں کے اردگرد اُگی ہوئی جڑی بوٹیاں بھی تیلے کی افزائش میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی آلات کا استعمال کرکے یقینی بنائیں۔ ان کی تلفی کے لئے کیمیائی زہر گلائیفوسیٹ (Glyphosate) بھی محکمہ زراعت کے مقامی عملے کی سفارش کردہ مقدار میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تیلے کا حملہ ہونے کی صورت میں گندم کی فصل کو سادہ پانی سے پاور سپرئیرکے ساتھ پریشر سے وقفہ وقفہ سے سپرے کریں۔اس ضمن میں گندم کی فصل کے مفید کیڑے مثلاً لیڈی برڈ بیٹل، کرائی سوپا، مکڑی، سرفڈ فلائی اور طفیلی کیڑے بھی مفید ثابت ہوتے ہیں جو ایسے کھیتوں میں چھوڑے جاسکتے ہیں جہاں تیلے کا حملہ ہو۔ان مفید کیڑوں کی پرورش محکمہ زراعت کی وہاڑی، پاکپتن، ساہیوال، اوکاڑہ، شیخوپورہ، حافظ آباد، لیہ، مظفر گڑھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور فیصل آباد میں قائم کردہ بیالوجیکل لیبارٹریوں میں کی جا رہی ہے۔

ان لیبارٹریوں سے مفید کیڑے کاشتکاروں کو مفت فراہم کئے جاتے ہیں۔بیالوجیکل کنٹرول کیلئے کاشتکار محکمہ زراعت کی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کاشتکار سست تیلے کی پہچان،نقصانات اور تدارک کے طریقوں بارے زراعت(توسیع) کے مقامی عملے سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ترجمان نے مزید بتایا کہ کاشتکار گندم کی فصل پر زرعی زہروں کا استعمال کم سے کم اور انتہائی ناگزیر صورت میں زراعت(توسیع) کے عملے کے مشورہ سے کریں کیونکہ یہ ہماری خوراک کا حصّہ ہے اور زیادہ سپرے سے اس پر بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں