قومی اسمبلی

قومی اسمبلی میں پھر ہنگامہ آرائی، ڈپٹی اسپیکر نے پی پی پی رکن آغا رفیع اللہ کو ایوان سے نکال دیا

اسلام آباد (عکس آن لائن)قومی اسمبلی میں ایک بار پھر اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی اور اسپیکر کے درمیان تلخ کلامی کے نتیجے میں ایوان میں ہنگامہ آرائی ہوئی جس کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ کو کو ایوان سے باہر نکال دیاجس کے بعد ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا ، ہر طرف شور شرابے کے سبب کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی ۔

بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی زیر صدار ت ہوا جس میں درآمدی پالیسی کے خلاف اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔اپوزیشن کے واک آؤٹ کے باوجود ایوان میں اس وقت ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی جب پیپلز پارٹی کے آغا رفیع اللہ گفتگو کی اجازت نہ ملنے پر اپنی نشست سے اٹھ کر اجلاس کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے ڈائس کے قریب آ گئے۔اس موقع پر قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دی کہ انہیں ایوان سے نکالا جائے، آپ پورے سیشن میں یہاں نہیں بیٹھ سکتے

اسپیکر نے آغاز رفیع اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نکلیں یہاں سے، آپ یہاں آج نہیں بیٹھ سکتے جس پر انہوں نے جواب دیا کہ کوئی میرے قریب تو آ کر دکھائے۔قاسم سوری نے کہا کہ انہیں پھر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو بطور اسپیکر کہہ رہا ہوں کہ آپ یہاں سے جائیں جس پر آغاز رفیع اللہ نے کہا کہ آپ معاون خصوصی کا دفاع کرنے کے حوالے سے میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دے رہے۔قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی نے سارجنٹ کو حکم دیا کہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی کو ایوان سے باہر لے کر جائیں۔اس مرحلے پر ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرنے لگا اور ہر طرف شور شرابے کے سبب کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔

اسپیکر کی رولنگ کے بعد سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس پر مجھے افسوس ہے، ایوان میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور میں معافی مانگتا ہوں، براہ مہربانی آپ اپنی رولنگ واپس لے لیں۔ساق وزیر اعظم کی درخواست کے باوجود اسپیکر نے آغا رفیع اللہ کو ایوان سے باہر نکالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آپ معافی مانگ رہے ہیں تو یہ ایک مرتبہ ایوان سے باہر جا کر واپس آئیں اور معافی مانگیں۔راجہ پرویز اشرف نے رولنگ واپس لینے کی درخواست جاری رکھی تاہم اسپیکر نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا اور آغا رفیع اللہ کو ایوان سے باہر نکالنے پر مصر رہے۔اس موقع پر تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رول کے تحت چیئر سے جو رولنگ آئی ہے اس پر عمل کیا جائے، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے معذرت بھی کی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ چیئر کا احترام رہنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں درخواست کروں گا کہ اپوزیشن کے رکن آغا رفیع اللہ چیئر کا احترام کریں، سابق وزیر اعظم نے خود معافی بھی مانگی ہے اور آپ چیئر کی رولنگ کے مطابق ایک منٹ کیلئے لابی چلے جائیں اور پھر واپس آ جائیں لیکن اس وقت چیئر کی رولنگ پر عملدرآمد پورے ایوان اور اس چیئر کی عزت کا سوال ہے اور 19 اور 20 کے تحت آپ اس پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔انہوںنے کہاکہ اگر انہوں نے اس کی پابندی نہ کی تو رول 21 کے تحت اگر ممبر جان بوجھ کر رولنگ کی خلاف ورزی کرے تو اگر اسپیکر کو یہ ضروری لگے تو جس رکن نے اس کی اتھارٹی کو نہیں مانا اور اس کی رولنگ کی توہین کی تو انہیں وارننگ دے کر ایوان کی کارروائی ہونے تک معطل بھی کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے درخواست کی کہ آغا صاحب ایوان سے باہر چلے جائیں اور واپس آ کر اپنا نقطہ نظر بیان کر دیں تاہم رولز کی پابندی کی جائے، چیئر کا احترام کیا جائے اور اگر اس ایوان کو رولز کے تحت نہیں چلایا جائے گا تو یہ آئین اور قانون کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔ ڈپٹی اسپیکر کے حکم پر آغا رفیع اللہ تین منٹ باہر رہنے کے بعد پھر ایوان میں واپس آگئے۔اجلا س کے دور ان پاکستان مسلم لیگ (ن)کے پارلیمانی لیڈر خواجہ محمد آصف نے کہاکہ درآمد کی غلط پالیسی اپنانے سے 440ارب روپے کا نقصان ہوا ہے ، یہ رقم کون ادا کریگا ؟۔

خواجہ آصف نے کہا کہ یہ کیسی زرعی پالیسی ہے کہ وہ چیزیں جن میں ہم خود کفیل تھے آج ہم انہیں درآمد کر رہے ہیں اور پاکستان میں ان کی قلت ہے اور یہ قیمتیں کبھی نہیں سنی تھیں۔انہوںنے کہاکہ درآمد کی غلط پالیسی اپنانے سے 440ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، یہ رقم کون ادا کرے گا، یہ نقصان عام پاکستانی ہوشربا مہنگائی کی صورت میں اٹھا رہا ہے جس سے 30ـ35 ہزار ماہوار کمانے والے شخص کیلئے زندگی گزارنا ناممکن ہو گیا ہے۔خواجہ آصف نے گندم کی قیمت 1600 روپے فی من مقرر کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ گندم کی قیمت 2ہزار روپے من مقرر کی جائے اور اگر صرف 40ارب روپے کسان کو دیے جائیں تو پوری ہو سکتی ہے اور آپ خود کفیل ہو جائیں گے۔ انہوںنے کہاکہ 2400 کی امپورٹ بھی کی جارہی ہے، سابق وزیر نے کہاکہ 1600 سے اگر گندم 2 ہزار نہ کی گئی تو اگلے سال گندم ناپید ہو جائیگی۔

انہوںنے کہاکہ ہم اپنے کسان کو تحفظ نہیں دے رہے، باہر کے فامر کو سپورٹ کر رہے ہیں، ہمارا ملک زرعی ہے تاہم زراعت کو تباہ کیا جا رہا ہے،گنے کی کاشت کے پیچھے گندم کو تباہ کیا جا رہا ہے، زراعت سے جی ڈی پی گروتھ بڑھا سکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ حکومت کی کسان مار پالیسی ہے، گندم کی کونسی لابی کو پروٹیکٹ کیا جا رہا ہے یہ وقت بتائیگا۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر حکومت کی توجہ ہونی چاہیے تاہم اپنے دوستوں اور اے ٹی ایمز کو فائدہ پہنچانے میں مصروف ہے، ہم اس مسئلے پر اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہیں۔اس موقع پر وفاقی زیر غلام سرور خان نے کہا کہ اپوزیشن نے بات کی ہے تو جواب بھی سننا چاہیے، پارلیمانی تہذیب کا تقاضا تو یہی ہے کہ جو سوال کیا جائے اس کا جواب بھی سنا جائے۔انہوں نے کہا کہ کابینہ میں گندم کی قیمت 2ہزار روپے من مقرر کرنے پر بحث ضرور ہوئی ہے تاہم فیصلہ نہیں ہو، تین صوبوں نے اپنی سفارشات دے دی ہیں۔

انہوںنے کہاکہ پیدواری قیمت ایک فارمالے کے تحت تیار کرنے کے بعد پنجاب نے اپنی سفارشات بھجوا دی ہیں جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے اپنی سفارشات بھجوا دی ہیں تاہم حکومت سندھ نے تاحال اپنی سفارشات نہیں بھجوائیں جس کی وجہ سے اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔انہوںنے کہاکہ اس معاملے پر بحث ہوئی ہے، کمیٹی بنی ہے اور زرعی شعبے کی ترقی کے لیے ہماری حکومت ایک پیکج دینا چاہتی ہے اور اس پیکج میں کھاد، بیج اور ادویہ رعایتی قیمت پر دینا چاہتی ہے اور یہ زرعی کمیٹی ایک پیکج کی صورت میں اعلان کرے گی جبکہ اپوزیشن کی تجویز پر یقیناً غور کریں گے۔انہوںنے کہاکہ اپوزیشن کی جو بھی سفارشات ہیں وہ کمیٹی کو بھجوا دے۔ ہم یقینا پاکستان کے بہتر مفاد میں فیصلہ کریں گے اور ان کے سفارشات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں