اسٹیل ملز

پاکستان اسٹیل ملز نے مالی سال 2022 کے دوران 7.45 ارب روپے منافع کمالیا

اسلام آباد (عکس آن لائن)پاکستان اسٹیل ملز نے جون 2015 سے بند ہونے کے باوجود مالی سال 22ـ2021 میں تقریباً 7 ارب 45 کروڑ روپے کا بعد از ٹیکس منافع حاصل کیا حالانکہ اس کا 206 ارب روپے کے نقصانات کا حجم اس کے 195 ارب 50 کروڑ روپے کے موجودہ اثاثوں سے زیادہ ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق انڈیپنڈنٹ آڈیٹرز کرو حسین چوہدری اینڈ کمپنی نے کہا کہ اسٹیل ملز نے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کے ساتھ 59 ارب 70 کروڑ روپے کے لیٹ پیمنٹ سرچارج (ایل پی ایس) پر اپنے تنازع کو مکمل طور پر ڈِسکلوز کردیا جو کہ مالی سال 2021 میں 52 ارب روپے تھا۔

اس کے باوجود 30 جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے کمپنی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کے مطابق اسٹیل ملز کے کْل اثاثے 30 جون 2022 تک تقریباً 839 ارب روپے تک پہنچ گئے جوکہ اس سے ایک سال قبل 549 ارب روپے تھے، یہ 65 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔آڈٹ شدہ اکاؤنٹس کی بنیاد پر کمپنی نے عیدالفطر سے قبل اپنے ملازمین کی اپریل کی تنخواہیں وفاقی بجٹ کے بجائے ایک دہائی سے زیادہ کے وقفے کے بعد اپنے وسائل سے ادا کیں۔تخمینے کے مطابق جون 2015 میں پاکستان اسٹیل ملز کی بندش کے بعد سے ملک کو اسٹیل ملز کی جانب سے تیار کی جانے والی اسٹیل کی مصنوعات کی درآمد کی مد میں تقریباً 18 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کا نقصان ہوا۔

پارلیمانی کمیٹی کے سمری کے مطابق ‘اسٹیل ملز کی اس حالت کی وجہ بلا روک ٹوک کرپشن، نااہلی، اضافی بھرتیوں اور اس کی بحالی کے لیے حکومت کی سْستی ہے۔آڈٹ شدہ اکائونٹس کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیاں رواں ہفتے اس بات کا جائزہ لیں گی کہ 2008 کے بعد سے آنے والی حکومتوں کی کارکردگی کے آڈٹ کا حکم یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے دیا جانا چاہیے یا نہیں کہ آیا یہ کمپنی اب بھی ایک اثاثہ ہے یا لائبلٹی بن چکی ہے۔پاکستان اسٹیل مل کے کْل اثاثوں کی مالیت 838 ارب 66 کروڑ روپے ہے جس میں 17 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر مشتمل 751 ارب کی پراپرٹی، ہزاروں گھر، بہت سے ہسپتال، تعلیمی مراکز، پلانٹ اور مشینری اور سرمایہ کاری کے لیے 71 ارب روپے کی جائیداد کے علاوہ دیگر اثاثے موجود ہیں۔

آڈیٹرز نے نشاندہی کی کہ 09ـ2008 میں عدالت عظمیٰ نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے ذریعے اسٹیل ملز کے نقصانات کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جس پر ایف آئی اے نے تفتیش کی اور فوجداری مقدمات درج کیے تھے۔مزید برآں کرپشن کا تعین کرنے کے لیے فرانزک آڈٹ کے لیے ایک انڈیپنڈنٹ فرم کا تقرر کیا گیا، اس فرم کی رپورٹ میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی تصدیق کی گئی۔بعدازاں سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کو قومی احتساب بیورو (نیب) منتقل کردیا جہاں یہ معاملہ تاحال زیر التوا ہے۔

آڈیٹرز نے نشاندہی کی کہ کمپنی کے تقریباً 12 فیصد حصص اس کے ملازمین کو 2009 میں بے نظیر ایمپلائز اسٹاک آپشن اسکیم (بیسوس) کے تحت دے دیے گئے تھے تاکہ ملازمین کو ریٹائرمنٹ یا برطرفی کے وقت یہ حصص واپس حکومت کے حوالے کرنے پر نقد ادائیگی کی جا سکے۔ملازمین کے حقوق قانونی طور پر طے کیے گئے تھے لیکن اس اسکیم کو چلانے کے لیے حکومت کو اپنی سرمایہ کاری کے 12 فیصد شیئرز ٹرسٹ فنڈ میں منتقل کرنے تھے، پاکستان اسٹیل ملز کے لیے ٹرسٹ فنڈ جنوری 2010 میں بنایا گیا تھا لیکن حصص تاحال ٹرسٹ فنڈ میں منتقل نہیں کیے گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں