تائیوان

مغرب کو “دوہری ہار” کی فکر کرنے کے بجائے چین کی تجویز پر غور کرنا چاہیے، چینی میڈ یا 

میو نخ (عکس آن لائن)  60ویں میونخ سیکورٹی کانفرنس ختم ہو گئی۔ یوکرین میں جاری بحران اور فلسطین اسرائیل تنازعہ کے تناظر میں موجودہ فورم بے چینی  سے بھرپور رہا۔منگل کے روز چینی میڈ یا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ

حالیہ برسوں میں، ہنگامہ آرائی سے دوچار دنیا کے تناظر میں، چین نے ہمیشہ مختلف ممالک کے مشترکہ مفادات پر مبنی متعدد انیشیٹوز اور تجاویز پیش کی ہیں۔رواں سال کی کانفرنس کے دوران چین نے دنیا کو ایک واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ ایک مستحکم قوت بننے کے لیے تیار ہے جو بڑے ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دیتی ہے، ہاٹ اسپاٹ ایشوز سے نمٹتی ہے، عالمی گورننس کو مضبوط کرتی ہے اور عالمی ترقی کو فروغ دیتی ہے۔یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس بیان میں “استحکام” ایک کلیدی لفظ  ہے ، اور مغرب کے لیے سلامتی اور ترقی کے نقطہ نظر سے “دوہری ہار” کی بے چینی پر قابو پانے کے لیے ایک حوالہ فراہم کرتا ہے۔

موجودہ میونخ سیکورٹی کانفرنس کے دوران بحث میں بیرونی دنیا نے بھی عالمی اقتصادی ترقی کے امکانات کے بارے میں مغرب کے خدشات کو دیکھا۔ چین نے نشاندہی کی کہ “ڈی کپلنگ” کی مخالفت اب بین الاقوامی اتفاق رائے بن چکی ہے، اور عدم تعاون سب سے بڑا خطرہ ہے۔2023 میں، چین کی معیشت نے متعدد چیلنجوں پر قابو پایا اور 5.2 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ عالمی ترقی میں ایک تہائی حصہ ڈالا۔مستند اداروں نے حال ہی میں رواں سال چین کی اقتصادی ترقی کے بارے میں اپنی پیش گوئیاں بڑھا دی ہیں۔ مزید برآں، چین غیرمتزلزل طور پر بیرونی دنیا کے لیے اپنے دروازے کو وسعت دے رہا ہے اورتعاون پر مبنی مفادات کی وکالت کر رہا ہے۔

عالمی کاروباری برادری کی عمومی رائے یہی ہے کہ  چینی طرز کی جدید کاری سے زیادہ سے زیادہ ممالک اور لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ جو بھی “ڈی۔رسکنگ” کے نام پر “ڈی سینیکائزیشن”  کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ دنیا اور خود کو عدم تحفظ میں ڈال رہا ہے۔

انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو صحیح راستے کا انتخاب خوشحالی کا باعث بنا ہے جبکہ غلط راستے کا انتخاب تباہی کا موجب رہا ہے۔ سلامتی کے مخمصے سے کیسے نکلنا ہے اس کا جواب درحقیقت بہت واضح ہے   ، ہمیں بند رہنے کے بجائے کھلے پن پر  کاربند رہنا چاہیے ؛ الگ تھلگ رہنے کے بجائے متحد ہونا چاہیے؛ مقابلہ بازی کے بجائے بات چیت اور تعاون کی راہ اپنانی چاہیے۔ مغربی اشرافیہ کو “دوہری ہار” کی فکر کرنے کے بجائے چین کی تجویز کو سننا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں