قیدیوں کی رہائی

قیدیوں کی رہائی، ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ تشکیل

اسلام آباد (عکس آن لائن)عدالت عظمی نے 5 رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات سے متعلق پٹیشن پر سماعت کرے گا کہ جس کے تحت عدالت نے 20 مارچ کو ایک حکم کے ذریعے زیر ٹرائل قیدیوں(یو ٹی پی)کو ضمانت دے دی تھی۔ نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل پانے والا بینچ مذکورہ درخواست پر سماعت پیر (30 مارچ)سے شروع کرے گا۔

بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد شامل ہیں۔سید نایاب حسن گردیزی نے راجہ محمد ندیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں 6 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکوٹ (آئی ایچ سی) کے دائرہ اختیار میں ازخود نوٹس شامل ہے؟۔

اپیل میں استدعا کی گئی کہ 20 مارچ کو آئی ایچ سی کی جانب سے دیا گیا حکم اختیارات کے منافی ہے کیونکہ یہ خالصتا ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے تناظر میں یو ٹی پی کے معاملے پر نظر ثانی کرے۔درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ کیا فوجداری ضابطہ اخلاق (سی آر پی سی) کے سیکشن 561-A کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ کے اختیارات غیرجانبدار تھے یا پھر ان کا استعمال صرف ایسے حالات میں کیا جاسکتا ہے جہاں کوئی صریح قانونی احکامات موجود نہیں تھے۔اپیل میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 20 مارچ والے حکم سے غلطیاں پیدا ہوئیں کہ وہ قانون، آئین اور پبلک پالیسی کے خلاف ہے۔خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے باعث اڈیالہ جیل میں موجود معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔

کورونا وائرس کے پھیلا کے پیش نظر 1362 قیدیوں کی ضمانت پر رہائی سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔20 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے راولپنڈی سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ سے زیر سماعت مقدمات میں قیدیوں کے بارے میں رپورٹ طلب کی تھی۔ہائیکورٹ کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جیل میں 2 ہزار 174قیدیوں کو رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ اس وقت جیل میں 5 ہزار ایک قیدی ہیں جن میں ایک ہزار 362 یو ٹی پی ہیں۔

رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ بیشتر یو ٹی پی غیر ممنوعہ شق کے دائرے میں آتے ہیں اور متعدد سزا یافتہ قیدی 55 سال سے زیادہ عمر کے ہیں اور ان میں سے کچھ ایسی بیماریوں میں مبتلا تھے جن کا علاج قید کے دوران نہیں کیا جاسکتا۔آئی ایچ سی نے ازخود نوٹس کا دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے پیش کردہ رپورٹ کو دفعہ 561 اے سی آر پی سی کے تحت پٹیشن میں تبدیل کردیا تھا کیونکہ وفاقی حکومت نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر اسے قومی مسئلہ قرار دے رکھا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں