عورت مارچ

عورت مارچ کے منتظمین کا عدالتی حکم کے باوجود نازیبا سلوگن کے تحت مارچ کا اعلان

لاہور(عکس آن لائن)عورت مارچ کی منتظمین خواتین نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے 8مارچ کو عالمی یوم حقوق نسواں کے موقع پر لاہور میں ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ کے سلوگن کے تحت عورت مارچ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

خادم رضوی سمیت دیگر ملاؤں نے ایسی زبان استعمال کی کہ عورت کو دنیا کے سامنے ننگا کردیا ہے تب اس پر سوال کیوں نہیں اٹھائے گئے۔عورت نے اپنے جسم کے حق کی بات اٹھا دی تو چیخیں مار رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار عورت مارچ کی منتظمین خواتین فریدیہ شہید ، شمائلہ، تنویر جہاں ، لیلیٰ ناز ، نگہت حسین اور دیگر نے لاہور پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔عورت مارچ کی منتظمین خواتین نے کہا کہ خواتین ڈے پر عورت مارچ کرنے والی جماعت اسلامی کے مجموعی کردار کو بھی دیکھا جائے۔ انہوں نے خود عورت کو کیا حقوق دیئے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں جمعیت کا جو کردار ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر معاشرے میں مختلف سوچیں ہوتی ہیں اور یہ صحت مند معاشروں کی نشانی ہے جہاں ایک سوچ ہو وہ معاشر جبر کا ہوتا ہے جس میں گھٹن کا ماحول ہوتا ہے۔ان سے سوال پوچھا گیا کہ مارچ میں غیر اخلاقی متنازعے پلے کارڈ کا معاملہ ہیجانی کیفیت کا باعث ہے جس پر عدالت کا فیصلہ بھی آ چکا ہے۔ عورت مارچ 2020ء کا سلوگن ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ ہوگا۔جس پر پریس کانفرنس میں شریک خواتین اور خواجہ سراؤں نے میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگانے شروع کردیئے اور کہاکہ عورت مار چ کا سلوگن ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ مذہبی اجتماعات اور مارچوں میں عورتوں کو غلیظ گالی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔خادم رضوی سمیت دیگر ملاؤں نے ایسی زبان استعمال کی کہ عورت کو دنیا کے سامنے ننگا کردیا ہے تب اس پر سوال کیوں نہیں اٹھائے گئے۔

عورت نے اپنے جسم کے حق کی بات اٹھا دی تو چیخیں مار رہے ہیں۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ہم بار بار یہ نعرہ لگائیں گے۔ ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘۔عورت مارچ کی منتظمین خواتین نے اپنا چارٹرآف ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ شادی کے لئے کم از کم عمر 18سال مقرر کرنے کیلئے فوری ملک بھر میں قانون سازی کی جائے اور مذہب کی جبری تبدیلی کا قانون بھی نافذ کیا جائے گھریلو تشدد کے واقعات کو موثر طور پر غیرقانونی قرار دیا جائے۔

ہتک عزت قوانین کو ناقابل تعزیر قرار دیا جائے اور سول ، شہری قوانین میں منظور شدہ ترامیم کو جنسی تشدد کا شکار ہونے والوں کی آواز دبانے کے خلاف استعمال ن ہونے کی یقین دہانی کرائی جائے۔ملازمت پیسہ افراد کی تنخواہ کم از کم 40000مختص کی جائے۔اجرت میں صنفی بنا پر ہونے والے امتیازی برتا ؤکو مجرمانہ عمل قرار دیا جائے۔ہر مقام ملازمت اور تعلیمی اداروں میں فی الفور جنسی تشدد کے خلاف خود مختار کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ریاست بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات کرئے۔لاپتہ افراد کو قانون کے مطابق عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کا تحفظ ایکٹ 2017 کا موثر نفاذ کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں