این ایف سی ایوارڈ

سینیٹ میں این ایف سی ایوارڈ سے متعلق ترمیمی بل پر ہنگامہ ، اپوزیشن کی جانب سے بل کی شدید مخالفت

اسلام آباد( عکس آن لائن ) سینیٹ میں نیشنل فنانس ایوارڈ (این ایف سی ایوارڈ) سے متعلق ترمیمی بل پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا ، اپوزیشن کی جانب سے بل کی شدید مخالفت اور حکومت پر سخت تنقید کی گئی ،

اپوزیشن اور حکومتی سینیٹرز کے درمیان سخت تلخ کلامی بھی ہوئی ، بل پیش کرنے کی اجازت کی تحریک کے حق میں 17جبکہ مخالفت میں 25ووٹ آئے ، جس کے باعث بیرسٹر محمد علی خان سیف کو بل پیش کرنے کی اجازت نہ مل سکی ، اپوزیشن رہنماﺅں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی سامراج اورپاکستان کی اشرافیہ مل کر پاکستان کے صوبوں کے وسائل پر قابض ہونا چاہتے ہیں،

عوام کے حقوق پر شب خون مارا جا رہا ہے، پارلیمنٹ انڈر اٹیک ہے،18ویں ترمیم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زیر بحث لایا جا رہا ہے، اصل مدعا کچھ اور ہے،جو باتیں کر رہے ہیں وہ مہرے ہیں، اصل لوگ سامنے نہیں آتے،کسی کو جرات نہیں ہے کہ یہاں پر صدارتی نظام لے کر آئے یا اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کرے ،وفاق اپنی نالائقیوں کو صوبوں پر نہ ڈالے ، صدارتی نظام کسی بھی حالت میں ہمیں منظور نہیں ہے،

بعض وزرا مسلسل این ایف سی پر بات کر رہے ہیں اگر کسی نے صدارتی نظام لانے کی کوشش کی اس نظام کو عوام نہیں مانے گی، حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے ملک میں نئی بحث چھیڑنا چاہتی ہے، 18ویں ترمیم سے تکلیف کیا ہے؟ ان خیالات کا اظہار سینیٹ میں اپوزیشن کے سینیٹر ز میاں رضا ربانی، شیری رحمان ، مشاہدا للہ خان ، مولانا عطاءالرحمان ، مولانا عبدا لغفور حیدری ، میر کبیر ، عثمان خان کاکڑ اور دیگر ارکان نے کیا ۔پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا،

اجلاس کے دوران سینیٹر محمد علی خان سیف نے دستور(ترمیمی) بل 2020(آرٹیکل 160میں ترمیم) پیش کرنے کی اجازت دینے کی تحریک پیش کی اور کہا کہ مجوزہ ترمیم ہے کہ جس وقت نیشنل فنانس ایوارڈ کا حساب کتاب کیا جائے گا کہ کس صوبے کو کتنا ملنا چاہیئے وفاق کے پاس کتنا ہونا چاہیئے اس وقت صوبوں کی ضروریات اور واجبات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرنا ہو گا، انہوں نے کہا کہ اس پر بل بحث ہو ،

دلیل کے ساتھ بات کی جائے ، کمیٹی آف ہول کا اجلاس بلایا جائے،انہوں نے کہا کہ ایک ڈر اور خود کی فضا کی قائم کی گئی ہے ، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس بل کی بھرپور مخالفت کرتا ہوں، ابھی تک صوبوں کو اپنے مالیاتی اختیارات نہیں دیئے گئے، آپ ایف بی آر میں اصلاحات کریں ،پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کی بات کی جارہی ہے،

سچ سامنے آگیا، عوام کے حقوق پر شب خون مارا جا رہا ہے، پارلیمنٹ انڈر اٹیک ہے ،،سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ سندھ ریونیو کلیکشن میں ٹارگٹ سے آگے ہے، اس وقت وفاق کی کلیکشن کہاں جارہی ہے، صوبے ہی اسوقت آپ کو تنخواہ دے رہے ہیں ، پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ بہت عرصے سے ایک تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اپوزیشن اور جمہوری قوتیں اٹھارویں ترمیم پر گفتگو سے گریز کر رہی ہیں، یہ بات درست نہیں ہے، بین الاقوامی مالیاتی سامراج اورپاکستان کی اشرافیہ مل کر پاکستان کے صوبوں کے وسائل پر قابض ہونا چاہتے ہیں،

این ایف سی ایوارڈ 1973کے آئین کے تحت آیا ہے، گیارہ گیارہ سال گزرتے رہے اور این ایف سی ایوارڈ نہیں آتا رہا، میاں رضا ربانی نے کہا کہ اگر آپ یہ بات کرتے ہیں کہ تھری اے پر نظر ثانی کریں ، تھری اے پر نظر ثانی کرلیں، لیکن پھر ہم یہ بات اٹھائیں گے تمام تر ٹیکس کلیکشن جو ہے وہ صوبوں کو دے دی جائے صوبے تمام تر ٹیکس اکھٹا کریں گے، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس معاملے پر بحث کی جائے،

سینیٹر میر کبیر نے کہاکہ یہ پاکستان کو کس حال تک پہنچانا چاہتے ہیں؟ قرضوں کا جو بوجھ ہے کیا یہ قرضے صوبے لے چکے ہیں؟ وفاق اپنی نالائقیوں کو صوبوں پر نہ ڈالے ، سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا صدارتی نظام کسی بھی حالت میں ہمیں منظور نہیں ہے، بعض وزراء مسلسل این ایف سی پر بات کر رہے ہیں اگر کسی نے صدارتی نظام کی کوشش کی اس نظام کو عوام نہیں مانے گی، آپ ہمیں کمزور سمجھ رہے ہو،

لوگ پارلیمنٹ پر مسلط ہونا چاہتے ہیں، سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے بجائے ملک میں نئی بحث چھیڑنا چاہتی ہے، 18ویں ترمیم سے تکلیف کیا ہے؟ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ہرمسئلے پر گفتگو ہو سکتی ہے لیکن اس کے طریقے ہوتے ہیں، حکومت کو پہلے گورننس دکھانی ہوتی ہے، اچانک کبھی صدارتی نظام کی بات ہوتی ہے،صدارتی نظام کس لیئے؟

جب یہ ملک دو لخت ہوا تو اس وقت صدارتی نظام تھا ، کیا پرویز مشرف کا نظام صدارتی نظام نہیں تھا؟وہ آدمی ملک کو تباہ برباد کر کے گیا ہے،کسی کو جرات نہیں ہے کہ یہاں پر صدارتی نظام لے کر آئے یا این ایف سی کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے یا اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کرے ، سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ثابت کردیں کہ میرا ایک بھی بھائی، میرا ایک بھی رشتہ دار آج پی آئی اے میں ہے تو میں سینیٹ سے استعفی دے دوں گا،ملک کے عوام رو رہے ہیں، وزیر نے پی آئی اے کے پائلٹوں کے بارے میں بیان دیا،

اگر کسی کی غلط ڈگری ہے تو اس کو برطرف کرنا چاہیئے ، سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ مسخرے انہوں نے اکٹھے کیئے ہوئے ہیں ، ریلوے، پی آئی اے خسارے میں جا رہا ہے، سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ 18ویں ترمیم کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زیر بحث لایا جا رہا ہے، اصل مدعا کچھ اور ہے اس وقت 18 ویں ترمیم زیر بحث لانا ملک کو کمزور کرنے کی باتیں ہیں،جو باتیں کر رہے ہیں وہ مہرے ہیں، اصل لوگ سامنے نہیں آتے ، مولانا عطاءالرحمان کی تقریر پر وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے اعتراض اٹھایاجس پر مولانا عطاءالرحمان اور وزیر پارلیمانی امو ر علی محمد خان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی ،

مولانا عطاءالرحمان نے کہا کہ آپ کو تنخواہ پوری ملے گی، آپ ہمیں نہیں روک سکتے، آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے، کچھ ملا ہو گا جو ہضم کرنا چاہتے ہیں ، اچھی دیہاڑی ملے گی ان کو، مولانا عطاء الرحمان نے کہا کہ ہم اس ملک کو توڑنے نہیں دیں گے، ہم آپ کا راستہ روکیں گے، سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا کہ 18ویں ترمیم رول بیک نہیں ہو سکتی ، پارلیمنٹ میں بیٹھ کر بحث کرنی چاہیے،پارلیمنٹ کی عزت رہنے دیں،

ہمیں ایک دوسرے کو سننا چاہیئے، سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ حکومتی بینچز والے اپوزیشن کی بات تحمل سے سنیں، 18 ویں ترمیم میں مزید چیزیں صوبوں کو دینی چاہیئیں، ظلم اور زیادتی کی انتہا ہوتی چلی آرہی ہے، ہم کسی صورت 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی حمایت نہیں کریں گے،

این ایف سی ایوارڈ کو کبھی رول بیک کرنے نہیں دیں اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے بل پیش کرنے کی اجازت دینے کی تحریک پر رائے شماری کرائی ، تحریک کے حق میں 17 جبکہ مخالفت میں 25 ووٹ آئے، جس کے بعد تحریک مسترد کر دی گئی

اپنا تبصرہ بھیجیں