شہباز شریف

سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے تعاون پر دوست ممالک کے شکر گزار ہیں، متاثرین کی بحالی و تعمیر نو کی سرگرمیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں،شہباز شریف

جنیوا(عکس آن لائن)وزیر اعظم محمدشہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے دوست ممالک کی جانب سے تعاون پر شکر گزار ہیں لیکن بحالی اور تعمیر نو کی سرگرمیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں۔سیلاب زدہ علاقوں کی تعمیر نو اور بحالی پر جنیوا میں ہونے والی عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہاکہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس میں پاکستان کے لوگوں کے احساسات آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں، جس طرح آپ نے ان سیلاب متاثرین کیلئے آواز بلند کی ہے، ان کے مسائل کو موثر انداز میں روشناس کرایا ہے۔انہوںنے کہاکہ10ستمبر میں آپ (انتونیو گوتیرس)اور وزیر خارجہ کے ہمراہ سندھ اور بلوچستان میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تھا، اس دوران آپ نے یتمیوں، بیوائوں سے بات کی تھی، اسی طرح یونیسیف کی جانب سے عارضی اسکول چلایا گیا، اس کو پاکستان کے عوام ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

وزیراعظم نے کہاکہ میں بہت سارے ممالک کی حکومتوں، وزرا اور دیگر شراکت داروں کا شکر گزار ہیں، جنہوں نے اس کانفرنس میں شرکت کی ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑے ہیں، ایونٹس ہماری توقعات سے زیادہ تیزی سے آ رہے ہیں، اب سوال صرف یہ نہیں ہے کہ کیسے زندہ رہنا ہے؟ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اپنے جسم کو برقرار رکھیں، سوال ہے کہ اپنے وقار کو کیسے بحال رکھیں؟وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے3کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور1700سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جس میں بچے بھی شامل تھے جبکہ80لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔انہوں نے بتایا کہ تباہ کن سیلاب سے8ہزار کلو میٹر روڈ تباہ ہوگئے، ہزاروں اسکول متاثر ہوئے جس کی وجہ سے26لاکھ طلبہ تعلیم سے مرحوم ہو گئے جس میں 10 لاکھ بچیاں بھی شامل ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ اقوام متحدہ، عالمی بینک، ایشین ڈیولپمنٹ بینک، عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف)، اے آئی آئی بی، یورپین یونین سمیت دیگردوست ممالک کی جانب سے دی گئی سپورٹ کرنے پر شکر گزار ہیں، بحالی اور تعمیر نو کی سرگرمیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں، سندھ اور بلوچستان کے کچھ اضلاع میں اب بھی سیلاب کا پانی کھڑا ہے۔

انہوںنے کہاکہ سیلاب کا پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار، گھروں اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر نہیں کی جاسکتیں، ہمیں سیلاب سے متاثرہ 3کروڑ 30 لاکھ افراد کو ان کا مستقبل واپس لوٹانا ہے، ان افراد کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے، انہیں واپس زندگی کی طرف آنا ہے اور روزگار حاصل کرنا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہاکہ آج کی کوشش بھی ہمارے لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑنے ہونے کا ایک اور موقع دینا ہے، گزشتہ اکتوبر میں ہم نے اپنے شراکت داروں کے ساتھ سیلاب کے نقصانات کا تخمینہ لگایا تھا، جو30ارب ڈالر سے زائد کے ہو چکے ہیں، یہ پاکستان کی جی ڈی پی کا 8فیصد بنتا ہے، جس نے 90 لاکھ کو شدید غربت میں دھکیل دیا ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستانی قوم اور ریاست نے اس تباہی کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے، جن کے وسائل کم ہیں، انہوں نے بھی آگے بڑھ کر ان کی مدد کی ہے، جنہوں نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہاکہ20ہزار فوجی جوان اور سیکڑوں ہیلی کاپٹرز اور موٹر بوٹس بحالی آپریشن کیلئے24گھنٹے متحرک رہے، ہمیں مشرق وسطی، یورپ، فار ایسٹ اور دنیا کے دیگر ممالک کا بھی ساتھ رہا، انہوں نے ہزاروں زندگیوں کو بچایا۔وزیراعظم نے کہاکہ ہم نے ایک سبق سیکھا ہے کہ کچھ بھی معمول کے مطابق واپس نہیں آسکتا، ہمیں مسلسل مشکل فیصلے کرنے ہیں، میں اس بات سے واقف ہوں کہ سخت ترین اصلاحات کے نتیجے میں پاکستان کے لوگوں کی زندگیاں مزید مشکل ہو جائیں گی۔شہباز شریف نے کہاکہ بحران سے بحالی کے لیے فنڈنگ کا گیپ بہت زیادہ ہے، پاکستان میں زندگی ہمیشہ کیلئے تبدیلی ہوچکی ہے، ہماری حکومت نے تعمیر نو اور بحالی کیلئے جامع منصوبہ تشکیل دیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ آر ایف منصوبے کا پہلا حصہ بحالی اور تعمیر نو کی ترجیحات کے بارے میں ہے، ہمیں کم از کم 16ارب 30 کروڑ ڈالر کی فنڈنگ کی ضرورت ہے، جس میں سے آدھے ملکی وسائل سے جبکہ دیگر نصف ہمارے ترقیاتی شراکت داروں اور دوستوں سے لینے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔انہوںنے کہاکہ فنڈنگ گیپ 8 ارب ڈالر کا ہے، جس کی ہمیں 3 سال کے عرصے میں ضرورت ہو گی، اگر یہ بحالی میں فنانسنگ گیپ مسلسل رکاوٹ رہا تو اس کے تباہ کن اثرات ہوں گے۔اس موقع پر عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ برس پاکستان نے مون سون بارشوں کے سبب بدترین سیلاب کا سامنا کیا، یہ قدرتی آفات کے نتیجے میں پاکستان میں ہونے والی تاریخی تباہ کاری تھی۔انہوں نے کہاکو جب بارشوں کا سلسلہ تھما تو ملک کے بیچوں بیچ 100کلو میٹر طویل ندی بن چکی تھی، اس قدرتی آفت سے ہر 7میں سے ایک پاکستانی متاثر ہوا، یہ تعداد 3کروڑ 30لاکھ بنتی ہے جن میں ہزاروں بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں۔وزیر خارجہ نے کہاکہ پاکستان کے کئی علاقے تاحال زیر آب ہیں، ہمارے ریلیف آپریشنز جاری ہیں اور ہم بحالی اور تعمیر نو کے اقدمات کے لیے کوشاں ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم اس کانفرنس میں شرکاء کا استقبال کرتے ہیں جہاں عالمی دنیا پاکستان کو سیلاب کے سبب درپیش مسائل کے ادراک کے لیے ایک جگہ جمع ہوئی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ عالمی دنیا کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر امداد اور تعاون فراہم کرنے پر ہم دنیا کے شکرگزار ہیں، سیلاب زدہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ہم بحالی کیلئے پائیدار اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہاکہ حکومتِ پاکستان نے اقوام متحدہ، عالمی بینک اور یورپی یونین سمیت عالمی اداروں کے ساتھ مل کر بحالی کے اقدامات کیلئے 4اسٹریٹجک ریکوری مقاصد پر مشتمل ایک پالیسی فریم ورک تیار کیا ہے جو مستقبل میں بھی قدرتی آفات سے نمٹنے کی پائیدار حکمت عملی فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت اور پاکستان اور عوام اس صورتحال سے بذات خود نمٹنے کیلئے ہرممکن اقدامات کریں گے، مذکورہ فریم ورک کے نصف فیصد میں ہمارے اپنے وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ اس کے باوجود اس فراہم ورک کو لاگو کرنے کیلئے آنے والے کئی برسوں تک پاکستان کو عالمی شراکت داروں کے نمایاں تعاون کی ضرورت ہوگی، ہم اس صورتحال کو پاکستان کو قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت سے بھرپور ملک بنانے کے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہاکہ اس کانفرنس کا مقصد پاکستان کیلئے عالمی برادری کی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہے، ہم اس کانفرنس کو صرف ایک تقریب کے طور پر نہیں بلکہ ایک طویل شراکت داری کے آغاز کے طور پر دیکھتے ہیں، ہم آپ سب سے مخلصانہ اور مستقل تعاون کے عزم کی توقع کرتے ہیں۔اس موقع پر سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتریس نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے تمام شرکا ء کا شکر گزار ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے قدرتی آفات کے مقابلے میں پاکستان کے عوام کے مضبوط عزم اور ایثار کا بذات خود مشاہدہ کیا ہے، قدرتی آفات سمیت علاقائی تنازعات سے پاکستان آج بھی گھرا ہے، میں نے انہیں محدود وسائل کے باوجود افغان مہاجرین کا استقبال کرتے دیکھا۔انتونیو گوتریس نے کہاکہ اس لیے میرا دل اس وقت ٹوٹ گیا جب میں نے عظیم جذبے سے بھرپور پاکستان کے عوام کو سیلاب میں گھرا دیکھا، اس کے نتیجے میں اب تک1700لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں، ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، 80لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے جبکہ اس سیلاب نے 90لاکھ لوگوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا۔کانفرنس کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہاکہ ہمیں اپنی جانب سے بھاری سرمایہ کاری اور کوششوں کے ذریعے پاکستانی عوام کے ایثار کی برابری کرنا ہوگی، پاکستان کو پائیدار طریقے سے دوبارہ تعمیر کیلئے 16ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی جبکہ مستقبل میں اسے بھی کہیں زیادہ کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ سماجی اور ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے، گھروں اور عمارتوں کی تعمیر نو، سڑکوں، پلوں، اسکولوں اور ہسپتالوں سمیت بنیادی ڈھانچے کو دوبارہ ڈیزائن کرنا ہوگا۔انتونیو گوتریس نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کے لوگ قدرتی آفات اور عالمی مالیاتی نظام کے اخلاقی دیوالیہ پن کا دوگنا شکار ہوئے ہیں، یہ نظام درمیانی آمدنی والے ممالک کو قرضوں میں ریلیف اور قدرتی آفات کے خلاف پائیدار سرمایہ کاری کیلئے درکار رعایتی امداد سے روکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ لہذا ترقی پذیر ممالک کیلئے قرضوں میں ریلیف اور رعایتی فنانسنگ تک رسائی کیلئے منفرد حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

انہوںنے کہاکہ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کو درپیش غیرمنصفانہ رویے کے ادراک کی ضرورت ہے، جانی و مالی نقصان کے حوالے سے کوئی شک ہے تو پاکستان چلے جائیں، موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریاں ایک حقیقت ہے۔اپنے خطاب کے اختتام پر انتونیو گوتیرس نے کہاکہ یہ کانفرنس پاکستان کی بحالی اور تعمیر نو کے طویل سفر کی جانب پہلا قدم ہے۔سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے وعدہ کیاکہ اقوام متحدہ پاکستان کے ساتھ ہے اور اس اہم اور زبردست مشن میں اقوام متحدہ کا ہر اقدام پاکستانی عوام کی برداشت اور فراخدلی کا عکاس ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں