چیف جسٹس

جاننا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا، چیف جسٹس

اسلام آباد (عکس آن لائن) فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم جاننا چاہتے ہیں دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ سپریم کورٹ فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی ، اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور اعوان سمیت دیگر وکلا عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھنے کی ہدایت کی۔

گزشتہ سماعت کا حکمنامہ سننے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم نے وزرات دفاع کے ملازمین پر سنجیدہ الزام لگائے ہیں، کیا اب بھی آپ نظرثانی درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں؟، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابصار عالم کے الزامات درست ہیں تو یہ معاملہ آپ سے متعلق ہے، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کب قائم ہوئی ہے؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیٹی 19 اکتوبر کو قائم کی گئی جس کے ساتھ ہی اٹارنی جنرل نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن پڑھ دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ کس کو پیش کرے گی؟، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کمیٹی اپنی رپورٹ وزارت دفاع کو پیش کرے گی، رپورٹ پھر سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جائے گی۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اس ساری مشق سے اصل چیز مسنگ ہے، یہ سب ایک آئی واش ہے، سب لوگ نظرثانی اپیلیں واپس لے رہے ہیں تو یہ کمیٹی ٹی او آرز آنکھوں میں دھول کے مترادف ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا آپ آج ضمانت دیتے ہیں کہ ملک میں جو ہو رہا ہے آئین کے مطابق ہے؟، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس معاملے کو ہینڈل کرنے کے اہل ہی نہیں ہیں، ایک صاحب باہر سے امپورٹ ہوتے ہیں اور پورا ملک مفلوج کر دیتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ٹی او آرز اتنے وسیع کر دیے کہ ہر کوئی بری ہو جائے گا، اربوں روپے کا نقصان ہوا مگر سرکار کو کوئی پرواہ نہیں، ٹی او آرز میں کہاں لکھا ہے کہ کون سے مخصوص واقعہ کی انکوائری کرنی ہے، ہمارا کام حکم کرنا ہے آپ کا کام اس پر عمل کروانا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں