اسلام آباد ہائیکورٹ

توہینِ عدالت کیس،ڈی سی اسلام آباد کی معافی کی استدعا مسترد، بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا

اسلام آباد (عکس آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی)اسلام آباد کی توہینِ عدالت کیس میں غیر مشروط معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے عرفان نواز کو بیرون ملک جانے سے روک دیا۔

سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی غیر قانونی گرفتاریوں کے کیس میں عدالتی حکم عدولی پر ڈی سی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کی۔ڈی سی اسلام آباد عرفان نواز میمن روسٹم پر آئے جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ کون سا آرڈر سمجھتے ہیں؟ آپ اب دوسرے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کروائیں گے، 970 دنوں کے 69 ایم پی او آرڈرز آپ نے جاری کیے ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا ان کے لوگوں کے ماں باپ نہیں تھے، کیا ان لوگوں نے عمرہ پر نہیں جانا تھا ؟ ،غلطی سے لگا تھا کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے، یہ کیس صرف آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے چل رہا ہے، یہ کیس آپ کے وکلا کی وجہ سے تاخیر کا شکار رہا ہے۔ڈی سی اسلام آباد کے وکیل راجا رضوان عباسی نے کہا آپ غصے میں ہیں، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ تھوڑی دیر بعد سماعت کرلیں۔

راجہ رضوان عباسی ایڈوکیٹ نے حتمی دلائل دیتے ہوئے ڈی سی اسلام آباد پر عائد فرد جرم کا متن پڑھا، یہ چارج کریمنل توہین عدالت پر عائد کیا گیا۔ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے جسٹس بابر ستار پر اعتراض کرتے ہوئے کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنے کی استدعا کی، جسٹس بابر ستار نے استدعا مسترد کر کے دلائل دینے کا حکم دے دیا۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کیا اب بینچ آپ کی مرضی سے بنیں گے، ہمیں اسکو ڈراماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں ہے دلائل دیں، وکیل نے موقف اپنایا کہ عدالتی حکم پر تھری ایم پی او کا آرڈر کاالعدم قرار دے دیا گیا تھا، بعد میں ایک نیا ایم پی او آرڈر جاری کیا گیا، دوسرا ایم پی او آرڈر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راولپنڈی کی جانب سے جاری ہوا، اگر توہین عدالت ہوئی تو ڈی سی اسلام آباد نے نہیں، ڈی سی راولپنڈی نے کی۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ آپ ڈی سی راولپنڈی کو بھی مروانا چاہتے ہیں؟ راجا رضوان عباسی نے کہا کہ میں کسی کو نہیں مروانا چاہتا، صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر توہین عدالت ہوئی تو ڈی سی راولپنڈی نے کی، ایم پی او جاری ہونے سے پہلے شہریار آفریدی پر دو مقدمے درج ہو چکے تھے۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ دوسرا ایم پی او جاری ہوتے وقت تو ضمانت بھی نہیں ہوئی تھی، راجا رضوان عباسی نے کہا کہ ملک بھر میں 9 مئی کے بعد غیر معمولی صورتحال تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے ڈی سی پنڈی کو نہیں بتایا؟ اسلام آباد کے ڈی سی کو بتا دیا؟ جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جن دنوں انہوں نے ایم پی او جاری کیا، اسی دن ڈی سی پنڈی نے ایم پی او واپس لیا تھا۔عدالت نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں پنڈی کے ڈی سی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست زیر التوا تھی، راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق شہریار آفریدی جیل میں ہوتے ہوئے احتجاج کی منصوبہ بندی کررہے تھے، ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ پر ایم پی او آرڈرز جاری کئے گئے،

کمیٹی میں آئی ایس آئی، آئی بی، ایم آئی، ٹرپل ون بریگیڈ اور پولیس کے نمائندگان شامل تھے۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ جس دن یہ سفارش ڈی سی اسلام آباد کو کی گئی، کیا ڈی سی راولپنڈی کو بھی سفارش کی گئی؟ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا راولپنڈی کی کمیٹی میں ان اداروں کے نمائندے شامل نہیں تھے؟ رضوان عباسی نے کہا کہ بانی تحریک انصاف 9 مئی کو گرفتار ہوئے تو امن و امان کا مسئلہ بنا تھا۔

رضوان عباسی نے کہا کہ بانی تحریک انصاف کو توشہ خانہ میں سزا کے بعد گرفتار کیا گیا تو خدشہ تھا کہ امن و امان کا مسئلہ ہوسکتا ہے، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ بانی تحریک انصاف کی رہائی کے احکامات تو سپریم کورٹ نے جاری کیے تھے۔رضوان عباسی نے کہا کہ جی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا تھا کہ کیسے عدالتی احاطے سے گرفتاری ہوسکتی ہے، انسانی غلطی کی ہر وقت گنجائش رہتی ہے لیکن بدنیتی شامل نہیں تھی، عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ 16 مئی 2023 کو جب پہلا ایم پی او آرڈر کالعدم ہوا تھا، عدالتی آبزرویشن کے باوجود ایک ہی طرح کی سورس رپورٹ پر مزید ایم پی او آرڈرز جاری کیے گئے، ہم نے ان کے اختیارات معطل کیے تو پھر انہوں نے ایم پی او آرڈرز جاری کرنا بند کیے، عدالت نے تو اپنے فیصلے میں یہاں تک لکھا کہ ڈی سی کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جاسکتی ہے، صرف اس بینچ نے نہیں بلکہ دوسرے بنچز نے بھی تقریبا چالیس ایم پی او آرڈرز کالعدم قرار دیے۔

راجا رضوان عباسی نے شہریار آفریدی کی حالیہ تقریر کا متن عدالت میں پیش کیا، رضوان عباسی نے کہا کہ ابھی بھی جو زبان ہے، اس میں دیکھ لیں شہریار آفریدی دھمکیاں دیتے ہیں، عدالت نے سوال کیا کہ اس حالیہ تقریر کے بعد پھر کیا ہوا ؟ کیا کسی سرکاری عمارت پر حملہ کیا گیا ؟ کیا وہ ڈی سی صاحب کو دعا دیتے کہ آپ نے مجھے 80 دن جیل میں رکھا؟راجہ رضوان عباسی نے کہا کہ ڈی سی راولپنڈی کا یہاں پیش نا ہونا انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھا، ڈی سی کا کوئی ایسا ارادہ نہیں تھا کہ عدالت کی اتھارٹی کو مسترد کرتا، عدالت سے استدعا ہے کہ توہین عدالت کا کیس خارج کیا جائے۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن کے وکیل رضوان عباسی نے دلائل مکمل کیے جس کے بعد سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی)آپریشنز جمیل ظفر کے وکیل شاہ خاور نے دلائل شروع کیے۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ایس ایس پی آپریشنز تو ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے ممبر تھے، ان کے پاس براہ راست معلومات تھیں، جمیل صاحب کیا آپ نے ان افراد کیخلاف کوئی ایکشن لیا جنہیں شہریار آفریدی نے جیل میں بیٹھ کر اکسایا۔

جمیل ظفر نے کہا کہ ہمارا فوکس تھا کہ لیڈر شپ کو احتجاج سے روکا جائے، کسی اور کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، عدالت نے کہا کہ جمیل صاحب اپنی تعیناتی کے بعد جو آپ نے ایم پی او آرڈرز کی سفارشات بھیجی ہیں، وہ ڈیٹا دے دیں جس پر ایس ایس پی جمیل ظفر نے کہا کہ محرم کے دنوں میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ڈی سی صاحب کو ایم پی اے آرڈرز کی سفارش کی جاتی ہے۔

عدالتی احکامات میں ایس ایس پی کے حوالے سے کوئی آبزرویشن شامل نہیں، ایڈووکیٹ شاہ خاور ایس ایس پی جمیل ظفر نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی، اس کے علاوہ گزشتہ سماعت پر عدالت میں پیش نہ ہونے پر ڈی سی اسلام آباد نے غیر مشروط معافی کی استدعا کی۔دوسرے شوکاز میں ڈی سی اسلام آباد کی غیر مشروط معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے عرفان نواز کو بیرون ملک جانے سے روک دیا، عدالت نے کہا کہ آئندہ ہفتے کیس کا فیصلہ سنائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں