آغا محمد اجمل

زبان، رویہ اور حقوق العباد

تحریر: آغا محمد اجمل

طویل عرصے کے بعد جب میرا اندرونِ شہر جانا ہوا تو اپنی مصروفیت سے فراغت کے بعد دل نے مجھے اندرون موری گیٹ چوک جھنڈے کی طرف جانے پر ماٸل کر دیا۔ وجہ تسمیہ بادشاہی مسجد کے دریچوں میں گزارے ہوئے یارِ خاص طاہر حسین پپو سے بے تقلفی کے لمحات کو اثاثہِ نورِ عین بنانا تھا۔

زبان، رویے اور حقوق العباد پر گفتگو کرتے ہوئے کہنے لگا یار آغا ہرعمل کا ردِ عمل ہونا فطری ہے۔ یاد رکھیں کسی کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کرنا ورنہ رب کی عطا سے محروم ہو جاو گے۔ اپنے رویے کو پرکھنا سیکھیں کیونکہ رویے آپ کے خاندانی پس منظر کی عکاسی کرتے ہیں۔

میری ملاقات کو مزید دو چند کرتے ہوئے کہنے لگے یار آغا اپنی ملاقاتوں کو ذریعہ معاش کے ترازو میں مت تولو کیونکہ یہ تم کو وعدہ خلافی کا مرتکب بنا دیتی ہے۔ اصلاحیت رب کی دین ہےاور اس کی حفاظت شکر کے مورچے سے کرو۔ یاد رکھنا حقوق العباد کی پہلی سیڑھی زبان ہے اور اس کی انتہا رویہ ہے۔آپ کی زبان اور رویے کی وجہ سے لوگ آپ کے حلقہِ احباب کی جامعیت و وسعت کا تعین کرلیتے ہیں۔

یار آغا ذرا اس نقطے پر غور ضرور کرنا۔ پپو نے میری محویت کی سنجیدگی پر مزید کہا یاد رکھنا دوست کی کامیابی آپ کی کامیابی ہے آپ اس کو معاشی سٹیٹس کے ترازو مپں مت تولیں کیونکہ آپ اس کا فخر ہو اور آپ اپنے رویےسے اس کا سرمایہ افتخار بن جاو۔

وقتِ رخصت مصافحہ کرتے ہوئے طاہر حسین پپو نے مسکراتے ہوئے کہا یار آغا زبان اور رویے کا درست استعمال تم کو تکبر سے بچائے رکھے گا نہیں تو تکبر کرنے والے کا جسم جہنم میں چیونٹی کی مانندکر دیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں