چین اور ایران

چین اور ایران کا غزہ کی صورتحال پر تبا دلہ خیال،  فوری جنگ بندی کا مطا لبہ

بیجنگ (عکس آن لائن)  چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے دعوات پر ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔منگل کے روز چینی نشر یاتی ادارے کے مطا بق 

عبداللہیان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے موجودہ چیئرمین ملک کے دور میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے حصول کے لیے چین کی کوششوں کو سراہا۔انہوں نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے چین کا شکریہ ادا کیا۔ان کا مزید کہنا تھا  کہ ایران مختلف شعبوں میں چین کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانے اور ایران اور چین کے تعلقات کو مسلسل فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔

وانگ ای نے کہا کہ چین اس سال صدر شی جن پھنگ اور صدرابراہیم رئیسی کے درمیان ہونے والی دو ملاقاتوں میں طے پانے والے اہم اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنانے، رابطوں کو مضبوط بنانے، باہمی اعتماد کو مضبوط بنانے، تعاون کو وسعت دینے، بین الاقوامی اور کثیر جہتی مواقع پر تعاون کو بڑھانے، حقیقی کثیرالجہتی پر عمل کرنے،دونوں ممالک اور ترقی پذیر ممالک کے جائز حقوق اور مفادات نیز  بین الاقوامی انصاف کا تحفظ کرنے اور چین ایران تعلقات کے استحکام اور طویل مدتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ علاقائی ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون کو فروغ دینے اور حقیقی معنوں میں علاقائی امن و سلامتی کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے چین  ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے  کی حمایت کرتا ہے۔

دونوں فریقین نےغزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ عبداللہیان نے کہا کہ ایران خواتین اور بچوں کے قتل کی مخالفت کرتا ہے اور غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کے راستے کھولنے کا حامی ہے۔ وانگ ای نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے معاملے پر چین کے موقف کا خلاصہ کیا جا سکتا ہے کہ  جنگ کو جلد از جلد ختم کیا جائے، انسانی امداد کو یقینی بنایا جائے اور “دو ریاستی حل” کو بحال کیا جائے۔ چین کا موقف عرب ممالک کے موقف سے مطابقت رکھتا ہے اور اسلامی ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اتفاق رائے رکھتا ہے۔ مختلف ممالک کو ایک مضبوط آواز اٹھانی چاہیے اور اس معاملے پر مزید مستقل موقف اختیار کرنا چاہیے۔چین عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ رابطے اور تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے تاکہ بتدریج “دو ریاستی حل” کی طرف واپسی کے لیے حالات پیدا ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں