چیف جسٹس

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دکھا دے بات ختم، چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد (عکس آن لائن)چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کو بلے کے نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دکھا دے بات ختم۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ مرکزی کیس میں علی ظفر وکیل تھے وہی اس کیس میں دلائل دیں گے جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو بھی دلائل دینا چاہے ہمیں مسئلہ نہیں۔چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے آپ نے پڑھا ہے۔

جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے، پہلے علی ظفر دلائل دیں گے، میں آئینی معاملہ پر دلائل دوں گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کی معاونت کروں گا لیکن آج انتخابی نشان اور حتمی فہرستوں کے اجرا کی آخری تاریخ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو ادراک ہے،

عدالت پر ایک بوجھ فیصلہ لکھنے کا بھی ہے جو وکیل پر نہیں ہے، وکیل تو بس دلائل دے کر نکل جاتے ہیں ہمیں فیصلہ لکھنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین اور الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزے کی اجازت نہیں دیتے، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا، آرٹیکل 17 دو کے تحت سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے،

سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، سیاسی جماعت کو انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں جو فیئر ٹرائل دے سکے، پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، اگر انتخابات چیلنج بھی ہوتے تو یہ سول کورٹ کا معاملہ بنتا ہے،

الیکشن کمیشن کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعت یا افراد کے سول رائٹس کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل سے ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے سے متصادم ہے کیونکہ ایسا کوئی ٹرائل نہیں ہوا، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے جو پرائیویٹ شہریوں کی تنظیم ہے، الیکشن کمیشن کو ازخود طور پر شکایت کنندہ اور فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے،

میری پانچ قانونی معروضات ہیں جن پر دلائل دوں گا، پی ٹی آئی نے 8 جون 2022 کو پہلا انتخاب کرایا، 23 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ غلط الیکشن ہیں، دوبارہ 20 دن میں کرائے جائیں، الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اس وقت دیا جب سپریم کورٹ نے 8 فروری کی تاریخ کا فیصلہ دیا، ہم نے الیکشن کمیشن کے حکم پر عمل درآمد کے ساتھ اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا، ہم نے فارم 65 داخل کیا اور پھر 14 ارکان جنہوں نے کہا ہم مبینہ رکن ہیں، الیکشن کو چیلنج کر دیا،

ان مبینہ پی ٹی آئی ارکان کی شکایت پر الیکشن کمیشن نے کارروائی کی، ان 14 شکایتوں پر کارروائی میں ہم نے زبانی طور پر نشان دہی کی کہ یہ پارٹی ارکان نہیں، سماعت کے اختتام پر الیکشن کمیشن نے ہمیں دو سوالات کے جوابات دینے کے لیے کہا، پارٹی نے ان سوالات کا تحریری جواب داخل کیا، کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے دیے، الیکشن کمیشن میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں،

ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا، الیکشن کمیشن کا حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں،

الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی، الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لیے انتخابات تسلیم کریں گے نہ ہی نشان دیں گے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے،

بنیادی سوال جمہوریت کا ہے، پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، انتخابات جو بھی ہوں ہر کوئی ان سے خوش نہیں ہوتا، اکبر بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن ان کی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر بابر نے اگر استعفی دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہو گی،

صرف سوشل میڈیا یا میڈیا پر الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرنا کافی نہیں، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران شوکاز نوٹس کیے گئے، الیکشن ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا اس لیے ایکٹ پر کوئی بات نہیں کریں گے، کیا آپ کی حکومت میں الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ تھا جو اب کسی کے ماتحت ہو گیا؟پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈول کو فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟

آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دبا ہے تو اس کو بھی ثابت کریں،

اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دبا ڈالے گی؟ عدالت آئینی اداروں کو کنٹرول تو نہیں کر سکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں تو بتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے۔کیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں، وہ عمومی نوعیت کے ہیں، انتخابی نشان بنیادی حقوق کا معاملہ ہے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے،

اگر ایوب کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے، پیپلز پارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز بنی، ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا، اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج کی اور تب کی صورتِ حال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا،

آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، آج کل ہر کوئی اسٹبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن پر بدنیتی کا الزام واپس لے لیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر انتخابات باقاعدہ طریقے کار سے کرائے ہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے، انتخابات کی پیچیدگیوں میں نہ جائیں، بس اتنا بتا دیں کہ کیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں تمام پارٹی اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں،

الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقے کار سے ہوئے یا نہیں۔جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نیجن بیضابطگیوں کی نشاندہی کی وہ پی ٹی آئی آئین سیہی کی ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول اور مقام پر کسی بیضابطگی کی نشاندہی نہیں کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں،

اکبر ایس بابر کو الیکشن لڑنے دیتے، سپورٹ نہ ہوتی تو ہار جاتے، پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، کل بانی پی ٹی آئی باہر آ کر کہہ دیں کہ کسے منتخب کر دیا، تو کیا ہو گا؟ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے 8 لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جن ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اس کی نشاندہی کر رہا ہوں۔جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ بنیادی نکتہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اگر وہ ہی نہ ہوا تو باقی چیزیں خود ختم ہوجائیں گی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈراما کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے،

ہمیں اپنے تمام اداروں کی ضرورت ہے جن کو مضبوط کرنا ہوگا، اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا، کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا؟ صرف سوشل میڈیا پر الزام تراشی سے ہمارے تمام اداروں کا نقصان ہوتا ہے، پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی، اس وقت سب ٹھیک تھا، اب پی ٹی آئی کہتی ہے سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے، پارلیمنٹ پر الزام لگانا آسان ہے، اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن سب ہمارے ادارے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے، پارلیمنٹ کا قانون ہے کہ پارٹیاں اپنے اندر جمہوریت لائیں، آپ ایسے دلائل نہ دیجیے جو آپ کے موقف کے خلاف جائیں، آپ بتائیں کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ انتخابی نشان بنیادی حق ہے، یہ چیزیں قانون میں ملتی ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ قانون کے تحت الیکشن کرانا ہے، اگرکوئی پارٹی الیکشن میں بیقاعدگی ہیتو رکن سول کورٹ جاسکتاہیکمیشن کواختیار نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی میں الیکشن کرائیں، پارٹی کے ان 14 ارکان کو الیکشن لڑنے کی اجازت کیوں نہیں دی؟پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے چیف جسٹس کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان ارکان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔بیرسٹر علی ظفر کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جمہوریت چاہیے مگر گھر میں نہیں چاہیے، آپ کو سیاست چاہیے، جمہوریت نہیں چاہیے، یہ تشریح نہیں مل سکتی کہ 2 لاکھ دے کر آپ پارٹی میں الیکشن نہ کرائیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب پارٹی الیکشن ہو رہا تھا اس وقت پارٹی ہیڈ کون تھا۔وکیل علی ظفر نے بتایا کہ اس وقت سربراہ بانی پی ٹی آئی تھے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کے تحت اقدام کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں، ہم کیوں دیانت داری کے ساتھ فوج کا لفظ استعمال نہیں کرتے؟ مبینہ طور پر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آ رہی، آپ یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ فوج مداخلت کر رہی ہے، آپ کی درخواست پر 12دنوں میں انتخابات کی تاریخ دی گئی، آپ کی جماعت خوش تھی، سب خوش تھے، آج پاکستان میں عدالتوں تک رسائی حاصل ہے، ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی درخواست دائر نہیں کر سکتا، جب آپ حکومت میں تھے ہمیں وہاں بھی جانا ہو گا، میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سے آئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ الزامات نہ لگائیں اگر وہ سچے ہیں،

جب آپ حکومت میں تھے الیکشن کمیشن نے آپ کو نوٹس کیا تھا، ہمیں دیکھنا ہو گا اس وقت کیا بدنیتی کی گئی؟ ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے پوری ٹائم لائن دیکھنا ہو گی، اچانک الزام لگانا کہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو کر کچھ کر رہی ہے ہم اس بات کو یقینی طور پر سنیں گے، اس اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت آپ کا یہ الزام نہیں ہوگا کہ یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں یا اپنے کیس کو قانون تک محدود رکھیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کوئی پٹواری انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے پہلے چیئرمین کون تھے؟پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پہلے چیئرمین تھے۔چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تسلیم کرلیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟ آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ تب ملے گا جب پارٹی آئین کے مطابق انتخابات ہوں گے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر ایسا حکم نہیں دے سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایسی بات ہے کہ پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ ہے، کھیلے نہیں مگر سرٹیفکیٹ مل گیا، پارٹیوں میں بڑے عہدوں پر بڑی سیاسی شخصیات ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے احترام میں ان بڑی سیاسی شخصیات کے خلاف کاغذات جمع نہ کرائے گئے ہوں، جو چھوٹے عہدے ہیں ان پر بھی بلامقابلہ امیدوار منتخب ہوئے،

اس طرح پارٹی انتخاب کی ساکھ نظر نہیں آتی۔پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ فرض کریں کوئی بھی الیکشن لڑنے نہیں آیا تو کیا الیکشن کالعدم ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سرکار 326 امیدواروں کو ان کے گھروں میں بند کر دے اور 326 امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرائے، قانونی طور پر تو الیکشن ہوگا لیکن میں تو اسے الیکشن نہیں مانوں گا، سوچ سمجھ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہیے، کاغذ کے ٹکڑوں پر نہیں چلتا ایک چیز ہے کہ کچھ ہوا یا نہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 میں الیکشن کمیشن کو اختیار سماعت نہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ویب سائٹ پر تو اعلان نہیں کیا، مخصوص لوگوں کو کیسے پتہ کہ الیکشن ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کے کاغذات نامزدگی ویب سائٹ پر بھی تھے اور صوبائی الیکشن کمیشن میں بھی تھے، پارٹی الیکشن ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی ویب سائٹ سے ہٹا دیے گئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ تو پھر آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ نے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کی، آپ کے آئین میں درج ہے کہ پارٹی چیئرمین کا الیکشن 2 سال بعد اور باقی عہدیداروں کا 3 سال بعد ہونا ہے، سب جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے عہدوں پر کون کون لوگ موجود ہوتے ہیں، شاید عزت میں یا کسی اور وجہ کے تحت ان عہدوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، چلیں ان بڑے عہدوں پر نہ سہی چھوٹے عہدوں پر تو الیکشن ہونے چاہئیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے انٹرا پارٹی الیکشن بلامقابلہ ہوئے ہیں، تو پھر آپ کے مطابق جو پشاور کے علاقے چمکنی میں اتنے لوگ اکٹھے تھے وہ کیوں آئے، کیا وہاں کسی نے بھی کسی ایک عہدیدار کے بلامقابلہ منتخب ہونے پر سوال نہیں اٹھایا؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر جماعت کے پاس ایک بڑا لیڈر ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں میں اس لیڈر کی عزت کے تحت لوگ ان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کرتے، پی ٹی آئی کے پاس بانی پی ٹی آئی جیسی قیادت ہے جس کے فیصلے پر لوگوں نے اعتراض نہیں کیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ پھر یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے، میں اسے آمریت کہوں گا، کچھ عہدیداروں پر اعتراض نہ ہو سمجھ آتی ہے، مگر کسی پر اعتراض نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے مقام پر کوئی نہیں آیا تو بھی الیکشن پر سوال نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نہیں میں ایسے الیکشن کو الیکشن نہیں کہوں گا، اب اگر 8 فروری کے انتخابات میں پارلمینٹ میں 326 لوگ بلامقابلہ آجائیں تو کیا وہ الیکشن ہوگا؟ لولی لنگڑی جمہوریت نہیں پوری جمہوریت ہونی چاہیے، بس اب بہت ہو گیا ہے، عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ بیرسٹر گوہر یا آپ نے پی ٹی آئی کب جوائن کی؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی، بیرسٹر گوہر پہلے پیپلز پارٹی میں تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تو ہم ایک ایسے پارٹی سربراہ کی بات پر یقین کریں جو 2 سال پہلے آیا، اکبر ایس بابر پر نہ کریں جو بانی رکن ہیں؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر کو 2018 میں پی ٹی آئی سے نکال دیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دکھائیں برطرفی کا لیٹر، کل سے یہی تو مانگ رہے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اکبر ایس بابر پارٹی ممبر نہیں ہیں تو اس کے ثبوت دکھائیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ مجھے پارٹی کی ہدایات ہیں کہ اکبر ایس بابر سمیت دیگر درخواست گزار رکن نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہدایات کس نے دی ہیں؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی چیئرمین کی ہدایت ہے کہ درخواست گزار ممبر نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات وہ چیئرمین دے رہے ہیں جو 2 سال پہلے پارٹی میں آئے۔پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ اور رابطہ ایپ پر تمام ممبرز کی تفصیل موجود ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔الیکشن کمیشن کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔واضح رہے کہ 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں