شہباز شریف

میاں نواز شریف کی صحت بدستور تشویشناک ، حکومت مریم نواز کو لندن آنے کی اجازت دے، شہباز شریف

لندن(عکس آن لائن)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر اور قائد حزب اختلاف محمد شہبازشریف نے نواز شریف کی صحت سے متعلق بیان جاری کرتے ہوئے حکومت سے مریم نواز کو والد کی تیمار داری کے لئے لندن آنے کی اجازت دینے کی اپیل کر دی میاں شہباز شریف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سابق وزیراعظم اور میرے برادر بزرگ میاں محمد نوازشریف کی صحت بدستور تشویشناک اور غیرمستحکم ہے۔

ان کے علاج کے لئے ضروری عمل میں دو مرتبہ تبدیلی کرنا پڑی کیونکہ ان کی صاحبزادی مریم نوازشریف جو ایسے وقت میں اپنے والد کے پاس ہونا چاہتی ہیں، کو پاکستان سے آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔پیچیدہ نوعیت کی متعدد جان لیوا بیماریوں کے لاحق ہونے کی بناپر میاں نوازشریف کی صحت کی صورتحال نازک ہے۔ میاں شہباز شریف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عارضہ قلب کی تکلیف کی بناانہیں پہلے بھی دومرتبہ اوپن ہارٹ سرجری سمیت متعدد قسم کے علاج کے عمل سے گزرنا پڑا۔میاں نواز شریف کے عارضہ قلب کی موجودہ صورتحال کی تشخیص اور علاج کی حکمت عملی سے متعلق جامع عمل لندن کے رائل برومپٹن ہسپتال میں مرتب ہوئی ۔

معالجین نے ان کے دل کی شریانوں اور خون کے بہاو میں رکاوٹوں، دل کے بڑے حصے اور اس کے کام کرنے کے عمل کے شدید متاثر ہونے کا انکشاف کیا ہے۔بیگم کلثوم نواز نے دارفانی سے کوچ کیا تو میاں نوازشریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ جیل میں قید تھے۔ اپنی شریک حیات کھودینے کے شدید غم نے ان کی صحت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ۔ اپنی زندگی کے اس مشکل ترین وقت میں مریم نواز ان کے لئے ڈھارس، عافیت وآسودگی، غم بانٹنے اور ان کی قوت کا باعث بنیں۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ انہیں اپنے والد کی دیکھ بھال کے لئے آنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔

مریم نوازشریف کے میاں صاحب کے پاس نہ ہونے کی بناپر ماہر امراض قلب کو دو بار کارڈیک کیتھیٹرائزیشن کا طے شدہ عمل تبدیل کرنا پڑا۔میاں نواز شریف کی صحت کی تشویشناک حالت کے پیش نظر مریم نوازکو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنے والد کے پاس آنے کی اجازت دی جائے۔کیونکہ جتنا وقت گزررہا ہے اتنا ہی طبی عمل کے لئے گنجائش کم ہورہی ہے۔میاں نوازشریف تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم پاکستان ہیں جن کی قومی معیشت اور دفاع کے لئے کاوشیں ناقابل فراموش اور مثالی ہیں۔ نیب عدالت کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنی صاحبزادی کے ہمراہ پاکستان واپس آگئے اور فیصلے پر شدید تحفظات کے باوجود وہ جیل چلے گئے اور ڈیڑھ سال تک ٹرائل اور ایک سو سے زائد پیشیوں کا سامنا کیا۔ ان کے علاج معالجے کے حق کے احترام کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں