عمران خان

عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس ذمہ داری کیساتھ اختیار بھی ہونا چاہیے ،دونوں کو علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا’ عمران خان

لاہور(عکس آن لائن)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اختیار بھی ہونا چاہیے ،ان دونوں کو علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا، فوج کی تمام پالیسیوں کا انحصار صرف ایک فرد کی شخصیت پر ہوتا ہے ،ہماری حکومت اور جنرل باجوہ کے مابین مثبت تعلقات کے نتیجے میں ہمیں پاک فوج کی منظم حمایت حاصل رہی، حکومت اور عسکری ادارے کی مشترکہ کوششوں سے کورونا کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا، جنرل باجوہ اور ہمارے درمیان مسائل تب پیدا ہوئے جب انہوں نے ملک کے چند بڑے مجرموں کی حمایت کی،بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد کسی کی ذاتی انا ء پر نہیں بلکہ ملکی مفادات پر ہونی چاہیے ،پاکستان کے لوگوں کا مفاد اس میں ہے کہ ہمارے امریکہ کے ساتھ بہترین تجارتی تعلقات ہوں ، روس اور یوکرین کے تنازعے

میں ہم نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ۔ تحریک انصاف کے میڈیا سیل کے مطابق غیر ملکی میڈیا کو انٹر ویو میں عمران خان نے کہا کہ جنرل باجوہ چاہتے تھے کہ ہم ان چوروں کی کرپشن معاف کر کے ان کے ساتھ مل کر کام کریں ،جنرل باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جن کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کیلئے راہ ہموار ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اختیار بھی ہونا چاہیے ،ان دونوں کو علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا، جب اختیار آرمی چیف کے پاس اور ذمہ داری وزیر اعظم کے پاس ہو تو نظام نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی نئی عسکری قیادت میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ رجیم چینج آپریشن ناکام ہو چکا ہے، اس وقت پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ ہو چکی ہے ،پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ساکھ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے اس صورت میں شفاف انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے ،سندھ کے بلدیاتی انتخابات کو تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کیا، افغانستان میں کسی بھی حکومت کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات کا ہونا ناگزیر ہے، میں نے غنی حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تاکہ وہ دہشت گردی کی صورت میں ہماری معاونت کر سکیں ،ہمارے وزیر خارجہ نے اپنا سارا وقت بیرونی دوروں پر صرف کیا لیکن افغانستان کا ایک بھی دورہ نہیں کیا، ہم اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے ،جب طالبان نے افغانستان کی حکومت سنبھالی تو 30 سے 40 ہزار مہاجرین کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا، ممارے لیے ان کی دوبارہ آباد کاری ایک بہت بڑا چیلنج تھا لیکن ہماری حکومت ختم ہونے کی وجہ سے یہ مکمل نہ ہو سکا ،اس دوران نئی حکومت آئی جس کی غفلت کی وجہ سے دہشت گردی نے ایک بار پھر سر اٹھانا شروع کر دیا۔

عمران خان نے کہا کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد کسی کی ذاتی انا ء پر نہیں بلکہ ملکی مفادات پر ہونی چاہیے ،پاکستان کے لوگوں کا مفاد اس میں ہے کہ ہمارے امریکہ کے ساتھ بہترین تجارتی تعلقات ہوں ، روس اور یوکرین کے تنازعے میں ہم نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ،کسی ایک فریق کی حمایت سے آپ اپنے لوگوں کے مفادات کو متاثر کرتے ہیں ،بحیثیت وزیر اعظم میری ترجیح میرے ملک کی 22 کروڑ عوام تھی ، پاکستان جیسا ملک جس کی بڑی آبادی خط غربت سے نیچے ہو وہ اخلاقی بیانات دینے کی استطاعت نہیں رکھتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں