شاہ محمود قریشی

سائفر کیس ،عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر ریاست اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری

اسلام آباد(عکس آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر ریاست اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کردیا۔بدھ کو سپریم کورٹ کے جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تین رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفرکیس میں درخواست ضمانت پرسماعت کی جس سلسلے میں عمران خان کی طرف سے وکیل سلمان صفدر پیش ہوئے اور انہوں نے ایف آئی آر عدالت میں پڑھ کر سنائی۔

جسٹس طارق نے سوال کیا کہ یہ معاملہ کب کا ہے؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ یہ معاملہ 2022 کا ہے، اس پر جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ سائفرکا مقدمہ درج ہونے میں پورا سال ہی لگا دیا ہے،کچھ دفعات میں سزا 2 سال ہے،کچھ میں سزائے موت اورعمرقید ہے۔جسٹس طارق نے ایف آئی اے تفتیشی افسر کے بغیر نوٹس پیش ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کس نے بلایا ہے؟ پیچھے جاکے بیٹھ جائیں۔سلمان صفدر نے انکوائری رپورٹ اور مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی پرلگے الزامات پڑھ کرسنائے اور کہا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اعظم خان کوسائفرکو غلط رنگ دینے کا کہا، الزام لگایا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے بلواسطہ یا بلاواسطہ ریاست کو نقصان پہنچایا۔

جسٹس طارق مسعود نے پوچھا کہ شریک ملزمان کے کردار کا تعین ہوا؟ اس پر وکیل صفائی نے کہا کہ اسد عمرکو چھوڑ دیا گیا اور اعظم خان کو ملزم سے استغاثہ کا گواہ بنادیا گیا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پہلے کیس پر کہا گیا کہ اعظم خان ملزم ہیں، انکوائری میں کہاگیا تھاکہ شریک ملزمان کا کردار تفتیش میں طے کیا جائے گا، حتمی تفتیشی رپورٹ میں اعظم خان سے متعلق تفتیشی افسرنے کیا کہا؟عدالت کے پوچھنے پر سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کوئی واضح مقف نہیں بتایا، اعظم خان اغوا ہوئے اور ان کے اہلخانہ نے مقدمہ بھی اغوا کا درج کروایا، اغوا کے بعد حیران کن طور پر اعظم خان کا 164 کا بیان آگیا، اس پر جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ دیکھیں ناں، ایسے پھر سچ سامنے آتا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سائفرایک سیکرٹ دستاویز تھا یا نہیں؟ سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر ڈی کلاسیفائی ہونے کے بعد سیکرٹ دستاویز نہیں تھا، عدالت نے پوچھا کہ ڈی کلاسیفائی ہونے سے پہلے کیا ملزم نیسائفر کسی کو دکھایا؟ وکیل نے کہا کہ اس دوران سائفر کسی کو نہیں دکھایا گیا۔عدالت نے سوال کیا کہ سائفر ہوا میں لہراکربتا دیا جائے اس میں یہ لکھا ہے توکیا یہ ابلاغ کے زمرے میں نہیں آتا؟ ابھی ہم الزامات کا ٹرائل نہیں کررہے، الزامات کیا ہیں صرف یہ دیکھ رہے ہیں۔جسٹس یحی آفریدی نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت وزیراعظم تھے اور انہوں نے اجلاس میں ساتھیوں سے سائفر شیئرکیا تھا، اگر وہ سائفرپرسازش کررہے تھے تو اس اجلاس کوکیوں ریکارڈ کیا؟ ہمارے سامنے مسئلہ سائفرکا متن لیک کرنے کا ہے۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ سائفرکیس کا ٹرائل کالعدم ہونے پر تو اب آپ کا نقصان ہی ہوا ہے، سائفرکیس کے ٹرائل میں اگرکوئی کمی بیشی تھی تو اس کو دفاع کیلئے آپ بعد میں استعمال کرسکتے تھے، سائفرٹرائل کالعدم ہونے کے بعد استغاثہ تمام غلطیاں دورکرکے ٹرائل کرے گا، ہمارے سامنے ضمانت کا کیس تھا جس پر نوٹسز کردیے، صحافی بعد میں کہیں گے جج صاحب کا موڈ ٹھیک نہیں تھا تو ضمانت نہیں دی جب کہ آج نوٹس ہی ہوسکتے تھے۔بعد ازاں عدالت نے سائفرکیس میں ریاست اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں