رانا ثنااللہ

دو خواتین کی مبینہ آڈیوانتہائی تشویشناک ہے ،معاملہ کا از خود نوٹس اور کلپ کا فورنزک آڈٹ کرایا جائے،وزیر داخلہ

فیصل آباد(عکس آن لائن)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ دو خواتین کے درمیان گفتگو کی مبینہ آڈیوانتہائی تشویشناک ہے ،معاملہ کا از خود نوٹس اور کلپ کا فورنزک آڈٹ کرایا جائے،اگر کلپ من گھڑت ہے تو اس میں ملوث لوگوں کو سزا دی جائے،اگر کلپ میں سچائی ہے تو بات چیت کرنے والوں سے جوابدہی کی جانی چاہیے ، جس شخص کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے اسے مستعفی ہونا چاہیے،جن لوگوں کا آڈیو میں ذکر ہے وہ عہدہ چھوڑ دیں۔

گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ اس آ ڈیو لیک میں اعلیٰ عدلیہ کی بعض شخصیات کا نام لیکر جو گفتگو کی گئی ہے اس پر ہر پاکستانی کو تشویش ہے کیونکہ گھریلو خواتین کو اس قسم کی نامناسب گفتگو نہیں کرنی چاہیے، یہی نہیں بلکہ جس نے یہ ٹیپ ریکارڈ کی اس کا بھی احتساب اور جس کی یہ مبینہ ٹیپ ہے اس کیخلاف بھی سخت ترین کاروائی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر گھریلو خواتین مبینہ طور پر کسی پارٹی کے لوگوں کو غداری پر اکسائیں گی اور اس قسم کی مبینہ متنازعہ بات چیت کریں گی تو اس کے اثرات بھی ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ قبل ازیں چوہدری پرویز الٰہی کی بھی ایک آڈیو لیک ہوئی تھی لہٰذا اگر ان آڈیوز میں کی جانیوالی گفتگو درست ہے تو اس کی پوچھ گچھ ضرور ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر ایسی گفتگو سے گھریلو خواتین کا تعلق نہیں ہوتا۔رانا ثنااللہ نے کہا کہ انصاف کے ایوانوں میں بیٹھنے والے بچوں، عزیزوں، ساس، سسر، ماں، بہن، بیٹی، بھائی جیسے رشتوں سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف آئین و قانون کے پابند ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے نواز شریف کو نااہل کیا گیا ،اس کے بعد بھی بعض اہم متعلقہ شخصیات خاص کرایک صیت کے بارے میں جو خبریں گردش میں آئیں،اس سے بھی ملک کا وقار مجروح ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس آڈیو کافوری ترجیحی بنیادوں پر فورنزک آڈٹ ہونا چاہیے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس آڈیو لیک میں دونوں خواتین ایک ئلے پر بات چیت کررہی ہیں جوانتخابات کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت ہے اور وہ اس پر اپنے خیالات کا اظہار کررہی ہیں جن کا تعلق بھی اہم ترین سطح پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو خواتین عام طور پر غیر سیاسی ہوتی ہیں اور خاص طور پر وہ ایسے امور پر اس طرح بات چیت نہیں کرتیں جس طرح اس آڈیو میں ایک اہم ملکی مسئلہ یعنی انتخابی مقدمہ کے بارے میں بات کی جارہی ہے جو عدلیہ میں زیر سماعت اور سنجیدہ نوعیت کا ہے۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر فارنزک آڈٹ اور ایف آئی اے کی تحقیقات میں یہ آڈیو جعلی ثابت ہو تو پھر ان عناصر کے خلاف عبرتناک کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے یہ مشتبہ آڈیو تیار کرکے ملک میں سنسنی پھیلائی۔ انہوں نے کہا کہ اس قسم کی آڈیوز اور ویڈیوز ماضی میں بھی منظر عام پر آتی رہیں تاہم ہر بار مصلحت کا مظاہرہ کرکے انہیں نظر انداز کیا جا تا رہا لیکن اگر اب ایسا ہوا تو خدانخواستہ اس سے ایک اہم ادارے کی نیک نامی متاثر ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی آڈیو لیک جس میں وہ مبینہ طور پر ایک جج سے بات چیت کررہے تھے کی تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرلی جاتی تو بار بار اس قسم کی پریکٹس کا اعادہ نہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کا اس سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تو انہیں بھی چیف جسٹس آف پاکستان سے مذکورہ آڈیو لیک کا فوری سوموٹو نوٹس لینے اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی اپیل کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن سے فرار نہیں چاہتے، چاہتے ہیں الیکشن اپنے وقت پر ہوں، جب الیکشن ہوں گے تو ن لیگ کی انتخابی مہم کی قیادت نوازشریف کریں گے۔قبل ازیں نماز عید الفطر کی ادائیگی کے بعد اپنے ڈیرہ پرگفتگو کرتے ہوئے

انہوں نے کہا کہ عمرانی حکومت کی چار سالہ پالیسیوں کی بدولت ملک اس وقت انتہائی مشکل کا شکار ہے کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کی روشنی میں پیدا شدہ معاشی بحران عام آدمی کیلئے سنگین مشکلات پیدا کررہا ہے اور بجلی، گیس، پٹرول و دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور یہ جان لیوا معاشی بحران سیاسی جماعتوں کیلئے بھی سخت تکلیف کا باعث بن رہا ہے کیونکہ اس سے عوام میں منفی جذبات کا پایا جانا قدرتی امر ہے۔

انہوں نے کہا کہ تشویش کی بات یہ ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اتنا کچھ کر گزرنے کے باوجود بھی آئی ایم ایف کی شرائط ابھی تک پوری نہیں ہورہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پر ستم ظریفی یہ کہ عمرانی فتنہ مسلسل حکومت اور اس کے اداروں کیلئے مسائل کھڑے کرنے، افراتفری پھیلانے اور کشیدگی و نفرت پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے اور ان کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح صرف اورصرف پنجاب میں الیکشن ہوجائیں تاکہ اس کے نتائج کی روشنی میں وہ باقی انتخابات پر اثر انداز ہوسکیں

حالانکہ ان کا اور باقی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا مؤقف با لکل واضح ہے کہ ملک بھر میں قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات آئین و قانون کی روشنی میں ایک ہی دن اور کیئر ٹیکر سیٹ اپ کے تحت ہوں کیونکہ اگر صرف پنجاب میں پہلے الیکشن ہوجاتے ہیں اور یہاں کوئی ایک جماعت واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو اس کے اثرات دیگر انتخابات پر ہوں گے جس سے جہاں صوبوں کو شکایات پیدا ہوں گی وہیں مرکز میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے جس کی وجہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی کل 272 میں سے 146 نشستیں پنجاب میں ہیں اور اس طرح یہاں پنجاب میں جو حکومت پہلے بنی ہوگی وہ ان بعد میں ہونیوالے انتخابات پر اثر انداز ضرور ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اس کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ کوئی بھی ان یکطرفہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کریگا۔ رانا ثنااللہ خان نے کہا کہ تمام صوبوں کے ممکنہ احتجاج اور پہلے ہی پنجاب کے بارے میں پائے جانیوالے ان کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے کیئر ٹیکر سیٹ اپ کے تحت ملک بھر میں ایک ہی روز تمام اسمبلیوں کے انتخابات کا انعقاد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سمیت تمام سیاسی جماعتیں اپنی عدلیہ کا بیحد احترام کرتی ہیں، اگر باہر سے کوئی آواز اٹھے تو اس کی تو خیر ہے لیکن اگر کسی ادارے کے اندر سے ہی آوازیں اٹھنا شروع ہوجائیں اور کبھی کوئی فیصلہ چار تین اور کبھی آٹھ سات کا متنازعہ معاملہ بن کر سامنے آئے تو وہ زیادہ تشویشناک ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی مسئلہ ایک جماعت تنہا حل نہیں کرسکتی اس کیلئے تمام جماعتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا لیکن اس کیلئے ایسا نہیں ہوسکتا کہ سیاسی جماعتوں کو کہا جا ئے کہ دو تین گھنٹے میں فیصلہ کرکے آجائیں تو الیکشن آگے کردیئے جائیں گے ورنہ الیکشن 14 مئی کو ہی ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب آئین میں ترمیم کرکے کہا گیا کہ الیکشن ایک ہی دن کیئر ٹیکر سیٹ اپ کے تحت ہوں گے تو پھر جلد بازی کیوں کی جارہی ہے،تمام اسمبلیوں کی مدت اگست میں ختم ہورہی ہے اور اس طرح اکتوبر میں الیکشن ہونا ہیں تاہم اگر کسی کو بہت زیادہ جلدی ہے اور وہ کسی وجہ سے قبل از وقت الیکشن کرانا ضروری سمجھتے ہیں تو اس کیلئے سیاسی جماعتوں کو کچھ وقت دیا جانا ضروری ہے تاکہ وہ کسی متفقہ و مشترکہ فیصلہ اور نتیجہ تک پہنچ سکیں تاہم اس میں سے پہلے انا کو نکالنا ہوگا۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ کچھ ایسے فیصلے بھی ہورہے ہیں کہ جن میں بعض کی آئینی و قانونی بنیاد بھی مستحکم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا بھی پہلی بار ہورہا ہے کہ پارلیمنٹ ایک قانون بنائے اور وہ قانون ابھی ایکٹ کا درجہ بھی اختیار نہیں کرے اور نافذالعمل بھی نہ ہو مگر اس پر حکم امتناعی جاری کردیا جا ئے اسلئے ہمیں جلد بازی کی بجائے بہت دانشمندی اور سوچ بچار سے کام چلانا ہوگا تاکہ ملک جو پہلے ہی کئی بحرانوں کا شکار ہے وہ مزید بحرانوں میں مبتلا نہ ہونے پائے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں آئینی، سیاسی اور معاشی بحران بہت گہرے ہیں اسلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر خلوص نیت سے ان کا حل تلاش کرنا ہوگا کیونکہ کوئی جماعت تنہا ان بحرانوں سے نمٹنے کے قابل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی کی سیاستدانوں والی فطرت نہیں اور اس نے صرف اپنی طمع نفسانی کی خاطر ایک اسمبلی توڑ کر ملک کو مزید بحرانوں کا شکار کردیا جو مخالفین سے بات تک کرنا گوارہ نہیں کرتا اور مسلسل حکومت کے خلاف مہم جوئی میں مصروف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں تناؤ اور مزید سیاسی پیچیدگیوں سے بچنا ہوگا جس کیلئے اداروں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام معاملات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملک و قوم کی بہتری کیلئے فیصلے کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی مذاکرات یا سیاسی ڈائیلاگ کی بات آتی ہے تو پی ٹی آئی اس سے بھا گ جاتی ہے اور اگر اب وہ اللہ اللہ کرکے مذاکرات کیلئے راضی ہوئی اور اس نے ایک کمیٹی تشکیل دی تو گزشتہ روز کی ایک کیس کی سماعت کے بعد انہیں پھر راہ فرار اختیار کرنے کا موقع مل گیا۔

رانا ثنااللہ خان نے کہا کہ عمران خان نے سیاسی، معاشی بحرانوں کو ختم کرنے کی جانب توجہ دینے کی بجائے ایسے کلچر کو فروغ دیا جس سے معاشرے میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت ابھری اور اوئے توئے کی سیاست نے فروغ پایا انہوں نے کہا کہ قوم کو اس عمرانی فتنے کا ادراک کرنا چاہیے وگرنہ یہ قوم کو کسی حادثہ سے دو چار کر کے 23 کروڑ لوگوں کیلئے مزید مسائل پیدا کرے گا اور اس کا حل یہی ہے کہ آئندہ الیکشن خواہ وہ جب بھی ہوں اس فتنہ کو عوام ووٹ کی طاقت سے مائنس کرکے نفرت و کشیدگی کی سیاست کے تابوت میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آخری کیل ٹھونک دیں۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ موجودہ بحرانی کیفیت میں الیکشن ممکن نہیں ہے جبکہ اگلے 16 دن میں انتظامات مکمل کرنابھی ممکن نہیں ہوسکتا نیزایسی صورتحال میں جب کچے کے علاقے میں آپریشن ہورہا ہے سکیورٹی امور بھی مکمل نہیں کئے جاسکتے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن فنڈ کا بل پارلیمینٹ نے مسترد کردیا ہے اسلئے حکومت مجاز نہیں رکھتی کہ وہ بل کی ادائیگی کرے جس کی سپریم کورٹ کو ہم رپورٹ پیش کردیں گے پھر اگرسپریم کورٹ چاہے تو پارلیمینٹ کو کوئی حکم دے سکتی ہے لیکن یہ تو ممکن نہیں کہ پارلیمینٹ بل مسترد کرے اور ہم پیسے اداکریں۔انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ان کا ایک ہی اصولی مؤقف ہے کہ الیکشن ایک ہی دن ہونا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسمبلیاں جائز وجہ سے تحلیل نہیں کی گئیں بلکہ صرف عمران خان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے توڑی گئیں اسلئے اگر آئینی طریقے سے اسمبلیاں توڑی جاتیں تو 90 دن کی شق بنتی تھی لہٰذاان حالات میں ایک صوبے کے الیکشن کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دو گھنٹے میں مذاکرات نہیں ہوتے بلکہ مذاکرات کرنے کو ٹائم لگتا ہے تاہم ان کی کوشش ہے کہ 26 تاریخ کو ہم بیٹھ کر بات کریں۔

انہوں نے کہا کہ 11 سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے جیسا رویہ روا رکھاجارہا ہے کیونکہ اس سے ملک مزید انارکی کی طرف جائے گا۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے اس موقع پر قوم کو عید کی مبارکباد پیش کی اور ان کیلئے نکی خواہشات کا اظہار کیا۔ قبل ازیں وزیر داخلہ نے ادارہ اقرا تعلیم القرآن سمن آباد فیصل آباد میں نماز عید ادا کی اور شہریوں میں گھل مل گئے جبکہ انہوں نے کئی مستحقین میں عیدی بھی تقسیم کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں