تیلدار اجناس

تیلدار اجناس کی کاشت کوفروغ دے کر پاکستان کو تیل کی پیداوار میں خود کفیل بنایاجاسکتا ہے،چیف سائنٹسٹ آری

مکوآنہ (عکس آن لائن)اعلیٰ کوالٹی کے حامل خوردنی تیل اور پروٹین پر مبنی پولٹری فیڈ کے حصول کیلئے سویابین کی فصل انتہائی اہمیت کی حامل ہے، زرعی سائنسدان مقامی انڈسٹری کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر سویابین،سرسوں، رایا اور سورج مکھی کی نئی اقسام متعارف کروانے کے علاوہ جدیدپیداواری ٹیکنالوجی کاشتکاروں کی دہلیز تک پہنچائیں۔ان خیالات کا اظہار چیف سائنٹسٹ آری فیصل آباد نواز خان نے شعبہ تیلدار اجناس ایوب ریسرچ کے زیر اہتمام سویابین کی کاشت کے فروغ بارے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان خوردنی تیل کی درآمد کیلئے سالانہ اربوں ڈالر زرمبادلہ خرچ کرتا ہے، کاشتکار تیلدار اجناس کی کاشت کوفروغ دے کر پاکستان کو نہ صرف تیل کی پیداوار میں خود کفیل کرسکتے ہیں بلکہ ویلیوایڈیشن کے ذریعے مرغی اور مچھلی کی برآمدات میں بھر پور اضافے سے پاکستان کا غیر ملکی قرض بھی اتار سکتے ہیں۔چیئرمین ورلڈ پولٹری ایسوسی ایشن جان محمدنے سویا بین کی کاشت کے فروغ کے لیے کاشتکاروں کو مناسب امدادی قیمت کا یقین دلاتے ہوئے بتایا کہ وہ رجسٹرڈ گروئرز کو سویا بین کا امدادی پیکیج دیں گے جس سے کاشتکار سویابین کی کاشت کی طرف راغب ہوں گے۔

چیف سائنٹسٹ شعبہ تیل دار اجناس طارق محمود نے سویا بین کی کاشت کی اہمیت اور پیداواری ٹیکنالوجی کے متعلق بتایا کہ سویا بین ایک اہم غذائی فصل ہے جس کی سالانہ عالمی پیداوار میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، بین الاقوامی سطح پر سویا بین کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ اس کی بہترین غذائی ساخت اور اشیائے خورد و نوش میں بیش بہا استعمال ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سویابین کے بیج میں 40 سے 42 فیصد اعلیٰ قسم کی پروٹین ہے جو مرغیوں، دودھ دینے والے جانوروں اور مچھلیوں کی خوراک بنانے میں استعمال ہوتی ہے، اس کے بیج میں 18سے 22 فیصد تک معیاری خوردنی تیل بھی پایا جاتا ہے جو ککنگ آئل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سعد مصطفی نے بتایا کہ 2 دہائیوں سے پاکستان میں پولٹری لائیوسٹاک اور فشریز انڈسٹری میں خاطر خواہ ہواہے جس کا براہ راست انحصار سویابین سے تیار کردہ خوراک کا بڑھتا استعمال ہے۔انہوں نے کہا کہ سویا بین کی مقامی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے جس کے نتیجے میں پولٹری ومچھلی اور لائیو سٹاک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ملک میں سویا بین کی درآمد ناگزیر ہے، اسے پنجاب کے نسبتاً کم درجہ حرارت اور اچھی بارش والے علاقوں میں کامیابی سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشرقی پنجاب،شمال مغربی پنجاب اوروسطی پنجاب سویابین کی وسیع پیمانے پر کاشت کیلئے موزوں علاقے ہیں، سویابین کی منافع بخش کاشت نارووال، سیالکوٹ،گجرات،جہلم، منڈی بہاؤالدین، سرگودھا،اٹک،اوکاڑہ، فیصل آباد اورپوٹھوہار کے آبپاش علاقوں میں کامیابی سے کی جا سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ فورٹ منرو کے پہاڑی علاقے، زیریں سندھ کے معتدل موسم والے علاقے اور بلوچستان کے نسبتاً معتدل آب و ہوا کے علاقے جہاں آبپاشی کی سہولت موجود ہے وہاں بھی اس کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ پروگرام کے آخر میں لیکچر دینے والے زرعی سائنسدانوں و ماہرین کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر کے عہدیداران میں شیلڈ زتقسیم کی گئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں