بیرون ممالک

بیرون ممالک سے درآمد فوڈ آئٹمز سے کرونا لاحق ہونے کے خدشات، سینیٹ قائمہ کمیٹی کامرس میں انکشاف

اسلام آباد (عکس آن لائن) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ بیرون ممالک سے آنے والے فوڈ آئٹمز کی چیکنگ نہ ہونے سے کرونا لاحق ہونے کے خدشات لاحق ہو سکتے ہیں ایران سے آنے والے سیب کو بارڈر پر چیک نہیں کیا جاتا جو ہائی رسک ہے ۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے کامرس عبدالرزاق داود نے کمیٹی کو بتایا کہ انڈیا نے کئی سال پہلے جی آر رولز پاس کر دیئے تھے مگر بدقسمتی سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس سال پاس کیے ہیںجمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کامرس کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مرزا محمد آفریدی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا اجلاس میں سینیٹرز احمد خان، دلاور خان، اسلام دین شیخ، عطا الرحمن اور میر کبیر احمد محمد شاہی کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے کامرس عبدالرزاق داود، پارلیمانی سیکرٹری برائے کامرس عالیہ حمزہ ملک، ایڈیشنل سیکرٹری کامرس، چیئرمین آئی پی او،جوائنٹ سیکرٹری وزارت کامرس اور دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایرانی سیب کی ایمپورٹ کی اجازت دینے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان کے محکمے کا ایک وفد ایران میں جا کر سیب کے حوالے سے سروے کرتا ہے۔ وہاں ماحول اور دیگر چیزوں کو تفصیلی دیکھا جاتا ہے مگر اس سال کرونا وبا کی وجہ سے نہیں جا سکے اور اگر دوسرے ملک یہاں سے ایمپورٹ کرنا چاہیں تو ان کے اس محکمے کے لوگ بھی یہاں سروے کرتے ہیں۔

سیب کی ایمپورٹ ہائی سیکورٹی رسک ہوتا ہے۔ ایران سے ٹیکنکل امداد بھی حاصل کی گئی ہے۔ 2018-19 میں 3.16 میٹرک ٹن سیب ایمپورٹ کیا گیا تھا جبکہ اس سال کرونا کی وجہ سے ایمپورٹ نہیں ہوا۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایران میں سیب چیک کرنے کی بجائے بارڈر پر میکنزم بنایا جائے۔ انسپکٹر زکی ضرورت بارڈر پر ہوتی ہے کہ وہ اجناس کو چیک کرے کہ کہیں مضرصحت تو نہیں ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت کامرس کا کام پالیسی بنانا ہے اور جو فوڈ زآئٹم ایمپورٹ ہوتی ہے ان کے حوالے سے ان کے متعلقہ محکمے سے چیک کرایا جائے۔بارڈ پر اور ملک میں چیک کرانا وزارت قومی تحفظ خوراک کا کام ہے۔چیئرمین کمیٹی نے بارڈر پر میکنزم بنانے کی ہدایت کر دی۔ سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ جب بلوچستان میں ٹماٹر اور پیازکی فصلیں تیار ہوتی ہے تو ایمپورٹ کی اجازت نہیں دینی چاہیے تاکہ ملک کی ضرورت اس صوبے سے پوری کی جائے اور ہمارے کسانوں کو فائدہ ہو سکے۔جب ہماری فصلیں تیار ہوتی ہے تو دیگر ممالک سے اجناس آنے کی وجہ سے نہ صرف ان کے نرخ متاثر ہوتے ہیں بلکہ کسانوں کو نقصان بھی ہوتا ہے۔

اس وقت ایمپورٹ پر پابندی لگائی جائے۔جس پر کامرس حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک متوازن طریقہ کار اختیار کرنا پڑتا ہے اگر ایمپورٹ کی اجازت نہ دی جائے تو قیمتیں بھی بڑھ سکتی ہیں۔قائمہ کمیٹی نے تیار فصل کے وقت اجناس کی ایمپورٹ پر پابندی کی سفارش کر دی۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بھارت نے جی آئی ٹیگ کیلئے یورپی یونین میں درخواست دی ہے اور11 ستمبر کو یورپی یونین کے اخبار میں بھی چھپی ہے کہ اگر اس سے کسی کو مسئلہ ہے تو وہ آگاہ کر سکتا ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2006 میں یورپی یونین تسلیم کر چکا ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک کی بناسپتی چاول پر ریگولیشن حاصل ہے۔12 اقسام کے بناسپتی چاول ہیں۔ ۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے کامرس عبدالرزاق داود نے کہا کہ انڈیا نے کئی سال پہلے جی آر رولز پاس کر دیئے تھے مگر بدقسمتی سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس سال پاس کیے ہیں۔ یہ حکومت کو بہت بڑا فیصلہ ہے اب وزارت کامرس کے پاس اختیار ات آئے ہیں اور اس کے تحت 78 آئٹمز آئے ہیں ان کو تحفظ دیا جائے گا۔

حکام نے کہا کہ بھارت نے غلط دعوی کیا ہے کہ بناسپتی چاول کی پیداوار صرف ان کے ملک میں ہوتی ہے۔ یورپی یونین پہلے ہی مانا چکا تھا پاکستان انڈیا کو اس پر چیلنج کرے گا۔ پاکستان میں اعلی معیار کا بناسپتی چاول پیدا ہوتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان 7 لاکھ ٹن ایکسپورٹ کرتا ہے جس میں سے50 فیصد یورپی یونین کو جاتا ہے۔

قائمہ کمیٹی نے وزارت کو ہدایت کی کہ معاملے کو بھرپور طریقے سے اٹھایا جائے اور بھارت کے غلط دعوی کو دنیا بھر میں جھوٹا کیا جائے۔وزیر اعظم کے مشیر عبدالرزاق داود نے کہاکہ یہ 9 ستونوں پر کھڑی ہے۔یہ بہت ہی بنیادی چیز ہے دیگر ممالک سے پیمنٹ آسانی سے آ اورجاسکتی ہے۔پہلے میکنزم نہیں تھا اب بنایا گیا ہے مگر ابھی بھی مکمل طور پر مطمعن نہیں ہوں کچھ شکایات موصول ہوئی ہیں اس کو مزید بہتر کیا جارہا ہے۔

وزارت کامرس نے اسٹیٹ بنک پاکستان سے معاملہ اٹھایا ہے اور ایک سکیم بنائی جا رہی ہے جس میں اسٹیٹ بنک پاکستان کمرشل بنکوں کو گارنٹی دے گا۔60 فیصد رسک بنک اور40 فیصد اسٹیٹ بنک اٹھائے گا۔ جس پر چیئرمین و اراکین کمیٹی نے کہا کہ چونکہ ای کامرس کے حوالے سے ورکنگ پیپر ابھی ملے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ لے کر کمیٹی کے آئندہ کے اجلاس میں اس پر تفصیلی بریفنگ اور جائزہ لیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں