شہزاد اکبر

بلاول بھٹو کو نیب کی طرف سے ڈھیل دی جاتی ہے، شہزاد اکبر

اسلام آباد(عکس آن لائن ) وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو نیب کی طرف سے ڈھیل دی جاتی ہے۔اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ارب 22 کروڑ روپے کی بینک ٹرانزیکشن سے جائیدادیں خریدی ہیں۔ بلاول بھٹو یہ کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمام معاملہ اس وقت کا ہے جب وہ 7 سال کے تھے، حقیقت یہ ہے کہ یہ زمینیں 2011 سے 2014 کے دوران خریدی گئیں، جب ان کے والد صدر مملکت تھے۔ جب کمپنی بنی اس وقت وہ 7 سال کے تھے،

جس وقت یہ سارا کام چل رہا تھا اس وقت وہ عاقل و بالغ ہوچکے تھے۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ شریف آدمی سیاست میں آکر غریب ہوجاتا ہے، وہ اپنی جائیدادیں اور زمینیں بیچ کر خرچے پورے کرتا ہے لیکن آپ ایسے ہونہار ہیں کہ آپ کے والد صدر مملکت ہیں اور آپ کے اثاثے ظاہر کئے گئے ہیں لیکن اس پر بھی آپ نے اتنی جائیدادیں بنالیں، اس کی پوچھ گچھ کے لیے آپ کو بلایا گیا۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے انہیں بے گناہ قرار دیا ہے، کاش انہوں نے تھوڑی سی تعلیم پاکستان میں بھی حاصل کی ہوتی، سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش کی گئی تھی، عدالت میں وکلا اور بینچ کی طرف سے زبانی باتیں بہت ہوتی ہیں، عدالت نے بلاول کو بے گناہ نہیں بلکہ معصوم کہا تھا لیکن ایسی بات تو شیخ رشید بھی بلاول کے بارے میں کہتے ہیں۔ ایسی چیزوں کو دل پر نہیں لینا چاہیے، سپریم کورٹ نے اپنے تحریری حکم میں بلاول بھٹو زرداری کے لیے واضح احکامات دیئے ہیں۔شہزاد اکبر نے کہا کہ قانون سے کوئی مبرا نہیں، اگر بلاول کو کہیں بلایا جاتا ہے تو انہیں جواب دینا پڑے گا۔ انہیں کوئی ایسا سرٹیفکیٹ نہیں ملا کہ انہیں کوئی بلا نہیں سکتا۔ ایسا پرانے پاکستان میں تھا، اب ایسا نہیں، سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں لکھا ہے کہ یہ معاملہ نیب کو بھجوایا جارہا ہے۔ نیب الہامی طریقے سے تفتیش نہیں کرسکتا، کیا وہ قانون سے اتنی بالاتر شخصیت ہیں کہ کوئی انہیں بلا نہیں سکتا۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ نیب کی جانب سے تفتیش کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے جھوٹ بولا، اسی جھوٹ کی بنیاد پر انہیں دوبارہ بلایا گیا اور دستاویزات مانگی گئیں۔انہوں نے بتایا کہ ‘اس سے قبل جب بلاول نیب آئے تھے تو انہوں نے بتایا تھا کہ وہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں شامل نہیں ہوئے اور جب یہ اجلاس ہوا اس وقت وہ پاکستان سے باہر تھے تاہم جب تصدیق کی گئی تو پتہ چلا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے دستاویزات پر ان کے دستخط بھی تھے اور آئی بی ایم ایس ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ آپ اس وقت ملک میں ہی تھے’۔ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے سفید جھوٹ بولا جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ بلایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اگر عام شخص پولیس کے سامنے جھوٹ بولے تو اسے جیل میں بند کردیا جاتا ہے اور یہ تو نیب کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ‘تفتیش کاروں کو اگر تمام چیزیں دے دی جائیں اور وہ آپ کو کلیئر کردیں تو آپ آزاد ہوں گے، قانون سے کوئی بھی مبرا نہیں، تحقیقات کے لیے پیش ہونا پڑتا ہے’۔انہوں نے مزید کہا کہ ‘تفتیش کار طلب کرتے ہیں، وہ ریکارڈ سامنے رکھتے ہیں اور ملزم کا ورژن لیتے ہیں جو ریکارڈ کا حصہ بنایا جاتا ہے جس کے بعد اگر انہیں کچھ غلط لگتا ہے تو وہ ریفرنس بنا کر عدالت لے کر جاتے ہیں’۔

میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ بلاول بھٹو زرداری کو نیب کی جانب سے زیادہ ڈھیل دی جارہی ہے۔ ایک عام شخص تحقیقات کے دوران جھوٹ بولے تو اسے فورا جیل میں بند کردیا جاتا ہے لیکن بلاول ناصرف نیب کے سامنے بلکہ باہر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘جے وی 225 کیس میں ان پر الزام ہے کہ زرداری گروپ آف کمپنیز نے اس کمپنی کے اکاؤنٹ میں ایک ارب 25 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے’۔شہزاد اکبر نے کہا کہ ‘بلاول کی طرح میں آپ سے جھوٹ نہیں بولوں گا، یہ الزام ہی ہے جسے ثابت ہونا ہے، آپ عدالتوں میں جائیں تاہم اس سے قبل آپ کو تحقیقاتی ایجنسیوں کے سامنے پیش ہونا پڑے گا’۔انہوں نے چیئرمین پیپلز پارٹی پر الزام عائد کیا کہ ‘بلاول نے منی لانڈرنگ کی رقوم سے جائیدادیں بنائیں، ٹنڈو الہ یار میں ان پیسوں سے زرعی زمین خریدی گئی، کلفٹن میں 5 پلاٹ خریدے گئے جن کو بلاول ہاؤس کا حصہ بنایا گیا، لاہور میں بلاول ہاؤس تعمیر کیا گیا اور دیگر زمینیں بھی خریدی گئیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بلاول گمراہ کرتے ہیں کہ میں اس وقت 7 سال کا بچہ تھا تو انہیں بتانا چاہوں گا یہ جائیدادیں 2011 سے 2014 کے درمیان خریدی گئیں جب ان کے والد صاحب صدر مملکت تھے، ان کی پوچھ گچھ کے لیے بلاول کو بلایا گیا تھا’۔انہوں نے بتایا کہ ‘عدالت نے مراد علی شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل)سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے وزیر اعلی ہونے کی وجہ سے ان کے کام میں خلل پڑے گا جس کی وجہ سے ان کا نام فی الحال ای سی ایل سے نکالا جائے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سے نیب کی تحقیقات پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے، نیب اس تمام معاملے کی تفتیش کرے گی اور اس کے بعد اگر اس نتیجے پر پہنچی کہ آپ نے کوئی جرم کیا ہے تو وہ وفاقی حکومت سے درخواست کرکے ای سی ایل میں نام بھی ڈلواسکتی ہے’۔شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری آپ ‘ان ٹچ’ نہیں ہیں کہ آپ کو کسی ادارے میں بلا کر سوال نہیں کیا جاسکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں