براڈشیٹ

براڈشیٹ سے متعلق تمام معاہدے ہمارے دور سے پہلے کے ہیں، حکومت اب براڈشیٹ سے کوئی معاہدہ نہیں، شہزاد اکبر

اسلام آباد(عکس آن لائن)معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر نے قومی اسمبلی کوبتایا ہے کہ براڈشیٹ سے متعلق تمام معاہدے ہمارے دور سے پہلے کے ہیں، حکومت پاکستان کا اب براڈشیٹ سے کوئی معاہدہ نہیں۔اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر نے ایسٹس ریکوری یونٹ کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ براڈ شیٹ کا معاہدہ 2000 میں ہوا جو 2003 میں منسوخ ہوا، دوبارہ رابطہ 2008 میں ہے، جس میں 1.8 ملین اور 1.5 ملین ڈالرز کی رقم فراہم کی گئی، 2009 میں براڈشیٹ کا میسج ملا کہ ادائیگی غلط کمپنی کو کی گئی ہے اور اس کے بعد پروسیڈنگ شروع ہوگئی، اور 2018 میں 21.5 ارب ڈالرز کا جرمانہ ہوا۔شہزاد اکبر نے کہا کہ براڈشیٹ سے متعلق تمام معاہدے ہمارے دور سے پہلے کے ہیں، براڈ شیٹ کے ساتھ فی الحال کوئی معاہدہ نہیں ہے ، ہمارے دور میں ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوئی ، حکومت یہ کیس ہار چکی ہے، کوئی بھی نیا معاہدہ کسی کے ساتھ نہیں کیا گیا، ہم گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کام کررہے ہیں، کسی کو اضافی رقم فراہم نہیں کی گئی، مختلف فارن ایجنسیز، ورلڈ بینک کا نظام، کوآرڈینیشن و کام ہے اسی تناظر میں کام ہورہا ہے۔معاون خصوصی نے بتایا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ ریکوری نہیں کرتا ،تفصیلات دیتا ہے، اور اس میں نیب، ایف آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے نمائندے شامل ہیں، گزشتہ ڈھائی سال میں ایسٹس ریکوری یونٹ پر 4 کروڑ 70 لاکھ اخراجات آئے، ایسٹس ریکوری یونٹ نے مجموعی طور پر339 ارب 30 کروڑ کی ریکوری کی، ایسٹس یونٹ نے 318 ارب کے بیرون ملک اثاثوں کا سراغ لگایا، ایسٹس ریکوری یونٹ کی معاونت سے نیب نے 290 ارب، ایف آئی اے نے6 ارب 10 کروڑ اور ایف بی آر نے 6 ارب 20 کروڑ کی ریکوری کی، یونٹ کی نشاندہی پر بیرون ملک 37 ارب کے اثاثے ریکور ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں