افغانستان امن مذاکرات

افغانستان امن مذاکرات میں خلل ڈالنے والے شدید نقصان میں رہیں گے‘سابق سیکریٹری خارجہ

اسلام آباد(عکس آن لائن)پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ایمبیسیڈر(ر)سلمان بشیر نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں قیامِ امن کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے والے اور اس کے خلاف سازشیں کرنے والے شدید نقصان اٹھائیں گے اور ناکام رہیں گے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر ایمبیسیڈر (ر)سید ابرار حسین کی حال ہی میں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے اشاعتی بازو آءپی ایس پریس کی جانب سے شائع کردہ کتاب ‘افغانستان: ملا عمر سے اشرف غنی تک’ کی تقریبِ رو نماءکے موقع پر کیا۔

اس تقریب کے ساتھ ہی افغانستان میں امریکہ کے 19 سال مکمل ہونے کے موقع پر حالیہ منظر نامے اور آنے والے حالات کے تناظر میں ایک خصوصی مذاکرے کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ ایمبیسیڈر (ر)سید ابرار حسین ایک سے زیادہ دفعہ افغانستان میں پاکستان کی نمائیندگی کرچکے ہیں جبکہ وزارتِ خارجہ میں بھی ان کی خدمات کا اکثر حصہ افغانستان کے حوالے سے ہی رہا۔

مصںف نے تاریخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنتے دیکھا اور اس دوران ان کو تاریخ کے بہت سے اہم واقعات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ یہ کتاب ملا عمر سے لے کر اشرف غںی کے دور تک ہونے والے تاریخی واقعات سے متعلق مصنف کے تجربات اور یاد داشتوں پر مبنی ہے جبکہ پاکستان افغانستان کے درمیان تعلقات کی تاریخ پر تبصرہ اور افغانستان کے امن عمل پر تجزیہ اس کتاب کے خصوصی اجزا ہیں۔

اس کے علاوہ مصنف نے کتاب کے آخر میں پاک افغان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ عملی تجاویز اور حکمتِ عملی بھی پیش کی ہے جسے دونوں طرف کے پالیسی حلقوں کو خلوصِ نیت اور ایمانداری سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کتاب میں دی گءسفارشات نہ صرف دونوں ممالک کے مابین باہمی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکیں گی، بلکہ خِطے میں پائیدار امن کے قیام کی راہیں بھی ہموار کریں گی۔

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد کے ایگزیگٹیو صدر خالد رحمن کی صدارت میں ہونے والی اس نشست سے خطاب کرنے والوں میں مہمانِ خصوصی ایمبیسیڈر [ر] سلمان بشیر کے علاوہ دیگر مقررین کے ہمراہ ایمبیسیڈر [ر] عبدلباسط، ایمبیسیڈر [ر] ایاز وزیر، بریگیڈئیر [ر] سید نذیر مہمند، ائیر کموڈور [ر] خالد اقبال، جناح انسٹیتیوٹ کی سینئیر ریسرچ فیلو عمارہ درانی، کابل کے سینٹر فار اسٹریٹیجِک اور ریجنل اسٹڈیز س تعلق رکھنے والے افغان مقررین پروفیسر ہارون خطییبی اور نصیر احمد نویدی، پشاور یونیورسٹی کے سابقہ ڈین ڈاکٹر عدنان سرور خان، اور سینئیر صحافی فیض اللہ خان [اے آر وائ] اور نعمت خان [عرب نیوز] شامل تھے۔

عمارہ درانی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی میڈیا میں جغرافیائی و سیاسی حِکمتِ عملی کے حوالے سے پاکستانی نقطہِ نظر کو زیادہ جگہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی ان موضوعات پر پاکستانی تبصرہ نگار وہاں بات کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے سفارتکاروں کو بخوبی استعمال کرے اور ان کے ذریعے سوشل میڈیا سمیت ابلاغِ عامہ کے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر پاکستانی نظریات اور نقطہِ نظر کی ترویج یقینی بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان اور افغانستان کے 11 ستمبر 2001 کے بعد کے تعلقات کو مو ضوعِ بحث بنایا جاتا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نءنسلیں دونوں ممالک کے اس سے پہلے کے تعلقات کو بھی اچھی طرح سمجھ سکیں۔

ایمبیسیڈر [ر] عبدالباسط نے کہا کہ طالبان خود کو ‘اسلامی امارات’ قرار دیتے ییں اور ایک نظریاتی تحریک کے طور پر ان کی اساس جمہوریت پر مبنی نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ شائد وہ افغانستان میں کسی جمہوری نظامِ حکومت کا حصہ نہ بننا پسند کریں۔

انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ افغان مذاکراتی عمل بغیر کسی اتفاق کے اختتام پذیر ہو جائے اور اس سارے عمل کا مقصد محض زیادہ وقت کا حصول یا نتیجہ محض قیمتی وقت کے ضیاع کی صورت میں ظاہر ہو۔

ان کا خیال تھا کہ پاکستان کو ایسی کسی بھی صورتحال کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے اور اس امن عمل کا سہرا اپنے سر باندھنے کے نتیجے میں مزید ذمہ داریاں لینے کے بجائے بیک اب حکمتِ عملی بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے جس کے لیے تمام متعلقہ فریقین کو ایک صفحے پر لا کر، ایک پائیدار پالیسی کی بنا کر، ایک مرطوط بیانیہ تشکیل دے کر اس کے ترویج کی جانی چاہیے۔ نشست میں شامل تمام مقررین اس ضرورت پر متفق تھے کہ پاکستان کو اپنا بیانیہ باقی دنیا تک پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی رنج کا اظہار کیا کہ افغانستان کے عنوان پر لکھی گءدستیاب کتابوں میں بیشتر بھارتی مصنفین کی لکھی ہوءہیں جبکہ اس موضوع پر پاکستانی مصنفین کا کام بہت ہی کم نظرآتا ہے۔

انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے عملی پیروکاروں کے پاس موجود معلومات اور استعداد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ان کی عمومی اور سوشل میڈیا کے موثر استعمال کی ٹریننگ کرنے کا بھی مشورہ دیا تاکہ ان کے پاس موجود علم اور قابلیت کو ملک کی خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

مقررین نے اس ضمن میں آءپی ایس پریس کی شائع کردہ ایمبیسیڈر (ر)ابرار حسین کی کتاب کو ایک بہترین کاوش اور اس عنوان پر ایک قیمتی علمی اثاثہ قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ پاکستان کو زمینی اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی توجہ بیرونی دنیا تک اپنا بیانیہ موثر انداز میں پہنچانے پر بھی مرکوز کرنی چاہیے جس کہ زریعے ان تک یہ معلومات فراہم کی جا سکیں کہ پاکستان نے اب تک افغانستان اور خظے میں قیامِ امن کے لیے کیا کِیا ہے اور مستقبل میں بھی اسے یقینی بنانے کے لیے وہ کس قدر سنجیدہ اور پرعزم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں