عرفان اقبال شیخ

اصلاحات کے ذریعے ٹیکس سسٹم کو آسان بناتے ہو ئے ٹیکس بیس کو وسیع کیا جانا چاہیے،عرفان اقبال شیخ

کراچی (عکس آن لائن)صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے کہا ہے کہ وفاقی بجٹ 2023-24 میں بین الاقوامی بیسٹ پریکٹس کی طرز پر ٹیکسیشن اصلاحات کی جانی چائیں؛ جن کے بنیادی اصول ٹیکس کے نظام کو آسان بنانا اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرناہونا چائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں معیشت کو صحیح راستے پر ڈالنے کے لیے وفاقی بجٹ میں ایسے ٹیکس نطام کی ضرورت ہے کہ جو کاروبار دوست اور ترقی پسندانہ ہو۔ عرفان اقبال شیخ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں ٹیکس کلیکشن جی ڈی پی کے 10 فیصد سے بھی کم ہے؛جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا ٹیکس نظام متوازن، وسیع البنیاد اور کاروبار دوست نہیں ہے۔

مزید برآں، ٹیکسیشن سسٹم کا بالواسطہ ٹیکسوں اور سرچارجز پر بہت زیادہ انحصار ملکی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ٹیکس کلیکشن ڈیٹ سروسنگ،ملکی دفاع، سماجی بہبود اور انفرااسٹرکچر کے ترقیاتی پروگراموں کے لیے ناکافی ہیں۔صدرایف پی سی سی آئی نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس دہندگان کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا پورا علم نہیں ہے اور ٹیکسیشن پالیسی میں کی جانے والی بڑی تبدیلیوں کو انتظامی فریم ورک میں مطلوبہ تعاون حاصل نہیں ہے۔ ایف بی آر میں مناسب تنظیمی ڈھانچے کا فقدان ہے؛ کاروبار دوست سہولیات کا فقدان ہے؛ ادارہ جاتی بجٹ بھی کم ہے اور انسانی وسائل کی ترقی پر بھی زیادہ زور نہیں دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ، ایف بی آر اور اس کا عملہ کرنٹ ٹیکنالوجی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ڈیجیٹلائزیشن سے لیس نہیں ہیں۔عرفان اقبال شیخ نے حکومت کو اپنی ٹیکس پالیسیوں میں اصلاحات کرنے کے لیے بنیادی اصولوں کی فہرست فراہم کی ہے: (i) ٹیکس پالیسیوں کو برآمدات پر مبنی کاروباروں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے ذریعے نئی اور غیر روائتی بین الاقوامی منڈیوں میں ایکسپورٹ کرنے میں مدد فراہم کرنی چاہیے کہ جن میں علاقائی، ذیلی علاقائی اور بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات مسابقتی ہوسکیں؛ (ii) ٹیکس کے نظام کوآسان ہونا چاہیے تاکہ مسلسل اقتصادی اور کاروباری ترقی کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو راغب کیا جا سکے؛ (ii) جامع اور پائیدار ترقی کے لیے میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنا لازمی شرط ہے اور ٹیکس کے نظام کو معاشی سرگرمیوں میں آسانی پیدا کرنی چاہیے اورایف بی آر (FBR)ایک نوٹس مینوفیکچرنگ فیکٹری کے طور پر کام کرنا بند کردینا چاہیے؛ (iii) ٹیکس کے موجودہ نظام سے مطلوبہ محصولات حاصل کرنے کے لیے حکومت کو فرسودہ قوانین و ضوابط اور ٹیکس کی شرحوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے اور اچھی تربیت یافتہ؛ٹیکنالوجی سے لیس اور پر عزم انسانی وسائل کو ترقی دینی چاہیے؛

(iv) ٹیکس پالیسی، انڈسٹریل پالیسی، برآمدات کے ہدف اور ما نیٹری پالیسی کے مقاصد میں ہم آہنگی ہونی چاہئے؛بصورت دیگر، ان میں سے کوئی بھی پالیسی کام نہیں کرے گی۔ایف پی سی سی آئی کی بجٹ ایڈوائزری کونسل کے کنوینر زکریا عثمان نے بتایا کہ اگرچہ روپے میں ریونیو کی وصولی کا حجم بڑھ گیا ہے؛ جوکہ مالی سال 2016 میں 3,112 ارب روپے سے بڑھ کر مالی سال 2021 میں 6,148 ارب روپے ہو گیا تھا؛ جو کہ چھ سالوں کے دوران محصولات کی وصولی کو تقریبا دگنا ہونا ظاہر کرتا ہے؛ تاہم، اسی مدت کے دوران، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 10 فیصد کے آس پاس جمود کا شکار رہا۔انہو ں نے مزید کہا کہ جی ڈی پی کا صرف10 فیصد ٹیکس اکٹھا کر کے کوئی بھی ملک خاطر خواہ اقتصادی ترقی نہیں کر سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں