قومی اسمبلی

اسپیکر قومی اسمبلی اس ایوان کو چلانے میں ناکام ہیں، حکومتی بینچ ان کی بات سنتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن ، اپوزیشن ارکان

اسلام آ باد ( عکس آن لائن ) قومی اسمبلی میں اپو زیشن ارکان شاہد خاقان عباسی، غلام مصطفی شاہ اور خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پارلیمانی ایوان میں یہ ہمت ہونی چاہیے کہ ایک قرار داد پاس کر کے ہمیشہ کے لیے صدارتی نظام کو دفن کردیا جائے،اسپیکر قومی اسمبلی اس ایوان کو چلانے میں ناکام ہیں، نہ حکومت کا بینچ ان کی بات سنتا ہے نہ اپوزیشن ، جب حالات یہ ہوجائیں تو ایک ہی باعزت راستہ رہ جاتا ہے،

یہ معاملہ یہاں رکے گا نہیں ایوان میں جو کتاب یہاں سے یا حکومتی بینچز سے ماری گئی وہ ملک کی جمہوریت کو ماری گئی ،آپ دیکھیں گے ایک دن آئے گا کہ یہ ٹی وی پر یہ پروگرام چلیں گے کہ یہ جمہوریت ہے تو اس سے بہتر آمریت ہے، جب یہاں حملہ ہوا تو سوشل میڈیا پر باتیں چلیں کہ صدارتی نظام لایا جائے پارلیمانی نظام ناکام ہے، ملک صدارتی نظام میں دو لخت ہوا تھا، یہ ملک صدارتی نظام میں نہیں چل سکتا، اس ایوان میں یہ ہمت ہونی چاہیے کہ ایک قرار داد پاس کر ہمیشہ کے لیے صدارتی نظام کو دفن کردیا جائے، حالیہ بجٹ میں کہیں غریب کا ذکر نہیں کیا گیا، جھوٹ ہی بول دیتے کہ ہم ریلیف دیں گے،قومی اثاثے گروی رکھنے کی مخالفت کریں گے، وزیراعظم ہاوس کی گاڑی بیچی گئی پھر مہنگی خریدی گئیں اب نئی کہانی یہ آگئی کہ ایئرپورٹس اور موٹرویز کو گروی رکھیں گے۔ جو افراد یہ ایئرپورٹس اور موٹرویز بناتے ہیں وہ مجرم اور چور ہوئے تو جو گروی رکھتے ہیں انہیں کیا جائے یہ سوال سب سے ہے اور ان سے بھی ہے جو انہیں لے کر آتے ہیں۔

قومی اثاثے گروی رکھنے کی باتیں ہورہی ہیں لیکن ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا، اپوزیشن میں جتنی بھی سکت ہے اس کی مخالفت کی جائے گی، غلام سرور خان ، با بر اعوان ، فرخ حبیب و دیگر نے کہا اپوزیشن لیڈر نے چار دن اٹھک بیٹھک کی،کمر میں درد تھا ،لندن جانا تھا وزیر اعظم کے شفاعی بجٹ نے درد دور کر دیا ،ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کورونا کا تھا،احسن طریقے سے ہینڈل کیا گیا،یہ امراءکا نہیں غریبوں کا بجٹ ہے،بات کرنے کی جگہ یہ اسمبلی ہے برطانیہ کی اسمبلی نہیں ،باہر سے بولیں گے تو اس سے زیادہ بولنے والے کو بھی مسترد کیا گیا ، اس بجٹ کی غریب لوگ بھی تعریف کر رہے ہیں، پیپلزپارٹی آٹھ بار اور ن لیگ تین بار آئی ایم ایف کے پاس گئی ہے،جب حالات اتنے ہی اچھے تھے تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئی۔

انکی عیاشیوں کا خرچہ عام آدمی برداشت کر رہا تھا،آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر حالات میں گفتگو کر رہے ہیں تو یہاں کیاجا رہا ہے آئی ایم ایف پروگرام منجمد ہو چکا ، اسحاق ڈار بتائیں کہ کیا موٹر وے اور جناح انٹرنیشنل کو انھوں نے گروی نہیں رکھوایا تھا،عمران خان کا قوم سے وعدہ ہے کہ میں بھی نہیں جھکوں گا نہ قوم کو جھکنے دیں گے۔ بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس پینل آ ف چئیرپرسن کے رکن امجد علی خان کی صدارت میں ہوا، اجلا س کے دوران آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث نویں روز بھی جاری رہی ۔امجد علی خان نے کہاکہ تمام جماعتوں کا بجٹ پر بحث کا وقت پورا ہوگیا ہے ، اب دیگر اراکین بھی حصہ لینا چاہتے ہیں ان کو موقع دینگے ، چیف وہپس اس حوالے سے نام دے دیں۔مرتضی جاوید عباسی نے کہاکہ اپوزیشن کو بجٹ پر بحث کے لیے وقت دینے پر شکرگزار ہوں، اپوزیشن کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ ارکان وقت کا لحاظ رکھیں گے، جب تک ارکان بجٹ پر مثبت تجاویز نہیں دیں گے، بجٹ میں نکھار نہیں آئے گا۔غلام محمد لالی نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ ریاست عوام کی جان و مال کی حفاظت کرے کمزوری نہ دکھائے۔ انصاف ہر شہری کا حق ہے۔

معاشی اعشاریوں کے نتائج عوام تک پہنچنا چاہیے ۔کسانوں تک زرعی تحقیق کے نتائج نہیں پہنچ رہے۔سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ(ن) کے راہنما شاہد خاقان عباسی نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی ایوان میں یہ ہمت ہونی چاہیے کہ ایک قرار داد پاس کر ہمیشہ کے لیے صدارتی نظام کو دفن کردیا جائے۔ اس ایوان میں اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکومتی بینچز سے حملہ کیا گیا جو پورے ملک نے دیکھا، گالی گلوچ ہوئی، کتابیں ماری گئیں اور ہم میں سے کوئی بھی شخص اس پر ایک افسوس کا لفظ بھی نہیں کہہ سکا۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ اسی ایوان میں ایک شخص نے اسپیکر کو جوتی مارنے کی دھمکی دی اور اسپیکر کچھ نہ کرسکے، اس پر ہمیں شرمندہ ہونا چاہیے۔ ایوان کی کارروائی رات 12 بجے تک چلی تو کیا کوئی اضافی خرچہ یا ملک کا نقصان ہوا، عوام ہی کی بات ہوئی، پورا پورا سال گزر جاتا ہے یہاں عوام کی بات نہیں ہوسکتی۔ ایوان میں معاملات اپوزیشن لاتی ہے، تحریک التوا پیش کی جاتی ہیں لیکن 3 سال کے عرصے میں ایک بھی تحریک التوا پر بحث نہیں ہوسکی، ہم کیا کررہے ہیں؟ یہ تمام بینچز اخلاقی برتری کی بنیاد پر چلتی ہے ۔کرسی آپ کو عزت نہیں دیتی آپ کو کرسی کو عزت دینی ہوتی ہے۔

یہ ہم سب کی ناکامی ہے کہ آج اسپیکر قومی اسمبلی اس ایوان کو چلانے میں ناکام ہیں، نہ حکومت کا بینچ ان کی بات سنتا ہے نہ اپوزیشن سنتی ہے، جب حالات یہ ہوجائیں تو ایک ہی باعزت راستہ رہ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ یہاں رکے گا نہیں ایوان میں جو کتاب یہاں سے یا حکومتی بینچز سے ماری گئی وہ ملک کی جمہوریت کو ماری گئی اور آپ دیکھیں گے ایک دن آئے گا کہ یہ ٹی وی پر یہ پروگرام چلیں گے کہ یہ جمہوریت ہے تو اس سے بہتر آمریت ہے۔ جو افراد ایوان میں حملہ آور تھے اور گالم گلوچ کررہے تھے ان میں 90 فیصد سے زائد کو اس ایوان میں نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ اس تحفے کا حق ادا کررہے ہیں جو انہیں دیا گیا اور جب یہاں حملہ ہوا تو سوشل میڈیا پر باتیں چلیں کہ صدارتی نظام لایا جائے پارلیمانی نظام ناکام ہے۔ ملک صدارتی نظام میں دو لخت ہوا تھا، یہ ملک صدارتی نظام میں نہیں چل سکتا، اس ایوان میں یہ ہمت ہونی چاہیے کہ ایک قرار داد پاس کر ہمیشہ کے لیے صدارتی نظام کو دفن کردیا جائے۔ بجٹ پڑھنے کا خاصہ تجربہ ہے لیکن حالیہ بجٹ میں کہیں غریب کا ذکر نہیں کیا گیا، جھوٹ ہی بول دیتے کہ ہم ریلیف دیں گے۔

آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین لباس ٹھیک نہیں پہنیں تو مردوں کے جذبات ابھر جاتے ہیں؟ آج ملک کا مسئلہ مہنگائی ہے، کیا کسی وزیر نے مہنگائی کی بات کی۔ میں وزیر خزانہ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ آٹے، چینی، گھی، پتی، دودھ دالوں، بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرسکتے ہیں کیوں کہ بجٹ اہداف پورے ہونے کی صورت میں تو پیٹرول 30 روپے مہنگا ہوجائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک بلواسطہ ٹیکسز پر چلتے ہیں، ہم 74 سال سے کوشش کرتے رہے کہ براہ راست ٹیکسز بڑھیں لیکن وزیر خزانہ کا پورا بجٹ بلواسطہ ٹیکسز کی عکاسی کررہا ہے جو عام آدمی ادا کرتا ہے۔ اس ملک میں سوائے ایک طبقے کے کسی کے ٹیکس گزیٹ آف پاکستان میں نہیں چھپتے، نہ کسی جرنیل، نہ جج، نہ بیوروکریٹ اور نہ ہی کاروباری فرد کا ٹیکس شائع ہوتا ہے یہ صرف اراکین پارلیمان کے نام کے ساتھ شائع ہوتے ہیں تو اگر ہم خود ٹیکس نہیں دیں گے تو دوسروں پر کس طرح ٹیکس لگاسکتے ہیں۔

جس پارلیمان کے اراکین خود ٹیکس نہ دیتے ہوں ان کے پاس عوام پر ٹیکس لگانے کا کیا قانونی جواز ہے، یہ چیزیں سمجھیں گے تو ہی ملک آگے بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ پٹرول پر ٹیکس لگا کر 600 ارب روپے جمع کرنے کا پروگرام ہے۔ وزراء کو گھر بھیجیں، ایف بی آر کو بند کر دیں۔ مہنگائی کر کے آپ پھر بھی ٹیکس جمع کر دیں۔ کابینہ میں ایسے لوگ ہیں جن کا کروڑوں کا گھر اور گاڑیاں ہیں ۔ اس ایوان میں بھی پیسے والے لوگ موجود ہیں ۔ لیکن اتنے امیر لوگ ٹیکس نہیں دیتے ۔ ہر آدمی کے اخراجات کا حکومت کے پاس ریکارڈ موجود ہے ۔ ایوان کے ارکان سے ہوچھا جائے وہ ٹیکس دیتے ہیں یا نہیں۔ جو رکن ٹیکس نہیں دیتا وہ کیوں نہیں دیتا ۔ جو خود ٹیکس نہ دے وہ عوام پر ٹیکس کیسے لگا سکتا ہے۔ چار سال بعد ہم وہیں ہوں گے جہاں پہلے تھے۔ اس ملک میں اس وقت ریکارڈ مہنگائی ہے۔ اس بجٹ میں غریب کے لیے کچھ نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین کو بجٹ میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

آئی ایم ایف کے دباو¿ پر بجلی کی قیمت بڑھائی جائے گی۔ سرکاری ملازم غربت کی سطح سے نیچے چلا گیا ہے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے نیا معاشی فارمولا بتایا ہے۔ وزیر دفاع کہتے ہیں مہنگائی ہو گی تو ترقی ہو گی۔ وزیر دفاع کی اپنی وزارت کے بجٹ کی افادیت تیس فیصد کم ہو گئی ہے۔ آپ چور کا لفظ حذف کریں تو آدھا ریکارڈ حذف ہوجائے گا۔وفاقی وزراء کو چور کے لفظ کے علاوہ آتا کیا ہے۔وزیر خزانہ کہتے ہیں ملک میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی۔کل کابینہ نے گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ کیا باہر کی گندم سے چپاتی اچھی بنتی ہے۔کیا باہر کی چینی زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔ ریکارڈ فصل ہوئی لیکن ہم گندم چینی باہر سے منگوا رہے ہیں۔ اس طرح کے انوکھے فیصلے یہی حکومت کر سکتی ہے۔ وزیروں کی تقاریر میں غلط بیانی کرنا اقر بار بار کرنا شامل ہے۔

اتنی غلط بیانی کرتے ہیں کہ خود اس پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔معیشت پر وہ وزیر تقریر کرتا ہے جو اس وزارت سے نکالا گیا۔ بجلی پر وہ وزیر تقریر کرتے ہیں جنہیں اس وزارت سے نکال گیا۔ وزیراعظم نے نااہلی پر ان وزرا کو نکالا۔جس وزارت سے نکالا گیا اسی پر اب لیکچر دیتے ہیں۔مجھ پر بھی الزامات عائد کئے گئے ۔میرے اوپر مقدمات بھی بنائے گئے ہیں ۔میں بھی حاضر ہوں، ریکارڈ بھی حاضر ہے۔ نواز شریف دور میں سستی ایل این جی لیکر آئے۔ اس حکومت کے وزراء جھوٹ بولتے ہیں ۔ میں ان سے ایل این جی کے معاملے پر مناظرہ کے لیے تیار ہوں۔ وفاقی وزیر برا ئے ایوی ایشن غلام سرور نے کہاکہ دو معزز اراکین پارلیمنٹ حکومتی بنچز سے زخمی ہوئے۔دو حکومتی اراکین اپوزیشن بنچز سے حملے کے نتیجے میں زخمی ہوئے۔ ایوان میں جب بھی بدمزگی ہوئی وہ اپوزیشن کی جانب سے ہوئی۔ مسلم لیگ نواز کا پاکستانی سیاست میں کیا کردار رہا۔ 1988 میں مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تب ن لیگ کی صوبائی حکومت نے بدترین سیاست کی۔ ن لیگ کی طرف سے مسلسل سازشیں کی گئی۔ سپریم کورٹ پر حملے کے لیے پورے صوبے سے کارکن بلا کر پنجاب ہاوس میں ٹھہرایا گیا۔

مسلم لیگ ن کو تین بار وفاق اور چھ بار پنجاب میں حکومت ملی۔ ن لیگ کے دور سبزیاں بھی درآمد کی گئیں۔ ن لیگ نے کبھی بھی کسان دوست بجٹ نہیں دیا۔ زراعت کے شعبے میں مزید سبسڈیز کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے اپنی تقریر کے دوران نئے اور پرانے پاکستان کی بات کی۔ اپوزیشن لیڈر کہتے ہیں انہیں نیا پاکستان نہیں پرانا پاکستان چاہیے ۔ پرانے پاکستان والی کرپشن دوبارہ ملنی چاہیے۔ ہم نے آراضی سنٹرز دیے اور لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کیا۔ پٹواری اور تحصیلدار نچلی سطح پر کرپشن کرتا تھا ۔ پچھلے دور میں ایک مشترکہ اجلاس ہوا جب ہم اپوزیشن میں تھے۔ اعتزاز احسن نے تب اپنی تقریر میں کہا جب میاں برادران پر برا وقت آتا ہے تو گھٹنے بھی پکڑتے ہیں۔چھ بار وزارت اعلی ن لیگ کے پاس رہی ،پینتیس سالوں میں پنڈی اسلام آباد کے لیے کیا کیا۔

انشااللہ رنگ روڈ بنے گا اور ہمارے دور میں مکمل ہو گا۔ کورونا وباءکے باعث پوری دنیا نے ملازمین کی تنخواہیں کاٹی اور نوکریوں سے نکالا گیا۔ پاکستان میں نہ ہی کسی کو نوکری سے نکالا گیا اور نہ تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی۔ ایسے حالات میں ہم نے سرکاری ملازمین کی دس فیصد تنخواہیں بڑھائی۔ 2018 میں ہمیں 19 بلین ڈالر کا خسارہ ملا ۔ ہم نے پاور سیکٹر کو سبسڈیز دی ۔ سمندرپارپاکستانی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ترسیلات زر میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ بہت جلد ملک میں معاشی استحکام آئے گا ۔ ہم نے ایکسپورٹ سیکٹر کو مراعات دیں۔ ملکی برآمدات 24 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں ۔ ترسیلات زر 28 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں ۔ ہم نے 16 لاکھ اضافی پاکستانیوں کو بیرون ملک روزگار دلوایاپیپلزپارٹی کے رکن غلام مصطفی شاہ نے کہاکہ ہماری دور حکومت میں چینی اور زرعی شعبے میں خود کفیل ہوئے۔ حکومتی اراکین جب تقریر کرتے ہیں تو زیادہ بحث پچھلی حکومتوں پر ہوتی ہے۔

اس حکومت کا ہنی مون وقت مکمل ہو گیا ہے اب بتائیں انہوں نے کیا کیا ہے۔ کچھ وزیر ایوان میں غلط بیانی کرتے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر نے کہا انکی انکم بڑھ گئی ہے تو پچھلے ادوار میں ایل این جی کے پراجیکٹ لگے انکی وجہ سے بڑھی ہے۔ اگر اس حکومت کی وجہ سے انکم بڑھی ہوتی تو گوادر کی کیوں نہیں بڑھی اسے انکی نالائقی کہا جائے، پی ٹی آئی کے رکن عامر ڈوگرنے کہاکہ اللہ تعالی نے کئی مرتبہ اسمبلیوں کا ممبر بنایا ہے۔ بڑے بڑے بجٹ دیکھے مگر ایسا عوام دوست بجٹ پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ چھوٹے دکانداروں نے،بڑے صنعت کاروں نے اور عام آدمی نے اس بجٹ کو قبول کیا ہے۔ ہمیشہ بجٹ پر ایک نعرہ لگتا تھا کہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔ اس بار اپوزیشن کی جانب سے بھی نہیں کہا گیا کہ یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔ یہ بجٹ عمران خان اور شوکت ترین کا بجٹ ہے۔ ایسا وقت بھی تھا کہ جب تنخواہوں کے پیسے بھی نہیں تھے۔ سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لیے بڑی رقم رکھی گئی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے لیے 14 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔عمران خان 2023 کے انتخابات کے لئے کام نہیں کر رہے، عوام کے لیے کر رہے ہیں۔

تاریخ میں پہلی مرتبہ سب سے زیادہ پیسہ بلوچستان کے پسماندہ اضلاع کے لیے رکھا گیا ہے ۔وزیراعظم کا اگلا ٹارگٹ زرعی ترقی کا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب اس ایوان کی ابتدا ہوئی تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں مولانا فضل الرحمٰن کی بات ماننا چاہیے اور اس جعلی الیکشن کے نتیجے میں جو اعداد و شمار ہم پر مسلط کیے گئے اس پرحلف لینے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ یہ ان کی ذاتی رائے ہے، سیاست میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں، وہ حلف نہ اٹھایا ہوتا تو آج یہ دن نہہیں دیکھنا پڑتا، ہم اس لیے آگئے کہ انتشار نہ ہو، ملک انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا لیکن آپ کو ہمارا یہاں آنا گوارا نہیں ہوا۔

جب ایوان شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف نے چارٹر آف اکانومی کی بات کی جس کا مذاق اڑایا، تماشہ بنایا گیا اور کہا گیا کہ این آر او مانگتے ہیں جو بھی ڈھنگ کی بات کی گئی اسے اہمیت نہیں دی گئی لیکن کوئی بھی قوم معاشی خودمختاری کے بغیر آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس بار پاکستان کے ساتھ بہت ہی بڑا ہاتھ ہوا، نئے پاکستان کے نام پر ایسے ایسے خواب دکھائے گئے، وزیراعظم ہاو¿س کی گاڑی بیچی گئی پھر مہنگی خریدی گئیں اب نئی کہانی یہ آگئی کہ ایئرپورٹس اور موٹرویز کو گروی رکھیں گے۔ جو افراد یہ ایئرپورٹس اور موٹرویز بناتے ہیں وہ مجرم اور چور ہوئے تو جو گروی رکھتے ہیں انہیں کیا جائے یہ سوال سب سے ہے اور ان سے بھی ہے جو انہیں لے کر آتے ہیں۔ قومی اثاثے گروی رکھنے کی باتیں ہورہی ہیں لیکن ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا، اپوزیشن میں جتنی بھی سکت ہے اس کی مخالفت کی جائے گی۔ایک وزیر صاحبہ ہیں جو جوڈو کڑاتے کی ماسٹر ہیں وہ کہتی ہیں الحمداللہ سال کا پہلا ٹرین حادثہ ہے۔ ایک وزیر صاحب ہیں جو ٹیبل پر کھڑے ہو کر وہی کتابیں اپوزیشن کو مار رہے تھے جو خود بجٹ انہوں نے پیش کیا۔ایک وزیر صاحب اچھے خاصے انسان تھے وہ کبھی سائنسدان بنتے ہیں ۔

وزیراعظم کے خلاف بات کرنے سے ڈر لگتا ہے ورنہ وہ جیل میں بھیج دیتے ہیں۔ کوئی قوم معاشی خود مختاری کے بغیر آذادی حاصل نہیں کر سکتی۔ معاشی عدم استحکام تب پیدا ہوتا ہے جب مقبول لیڈر کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔حکومت کسی کی بھی ہو،معاشی خودمختاری نہیں ہوئی تو کشکول لیکر پھرتے رہیں گے ۔ اٹھارہ وزراء اعظم کے ساتھ جو ہوا ،اگلے کے ساتھ بھی یہی ہو گا ۔ گندم چاول گھی چینی امپورٹ کرنے ہیں تو زراعت پالیسی کی ناکامی کا اعتراف کریں۔جو کام کرتا ہے اسے جیل جانا پڑتا ہے۔ اہم ایل این ون پر ڈیزائن ،معائدہ ہم نے کیا ۔فیزون تین سال میں مکمل ہونا تھا،کچھ بھی نہیں ہوا ۔وزیر اعظم نے کہا اپوزیشن فوج کو اکساتی ہے ۔ بتائیں کس نے کس افسر سے رابطہ کیا ۔ آپ کے خلاف دھرنا نہیں دیں گے ۔انتقام کا سلسلہ کہیں رکنا چاہیے ۔پاکستان کے حال پر رحم کریں ،سیدھے منہ کسی سے سلام کرنے کو تیار نہیں ۔ اگر اڈے نہیں دینے تو کیا رائے نہیں لینی ،کیا اکیلے ملک چلانا ہے ۔سیاستدانوں کو افغانستان پر سیکورٹی ادارے بریف کریں ۔دنیا میں سازشیں ہو رہی ہیں ،ہم ایک دوسرے کے گریبان پھاڑنے کو تیار ہیں ۔لعن طعن کرنے کی بجائے افہام و تفہیم سے معاملات کو آگے بڑھایا جائے، زاہد درانی نے کہاکہ جانی خیل میں ابھی بھی لاش پڑی ہے۔وہاں تصادم ہوا ہے پولیس نے ڈائریکٹ فائرنگ کی ہے۔

پولیس والے اور احتجاج کرنے والے بھی زخمی ہیں۔ جاوید علی شاہ نے کہاکہ زراعت کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ وزراء نے کہا کہ عمران خان کی کوششوں سے فصل بڑھی ہے۔ اگر فصل بڑھی ہے تو اربوں روپے کی گندم بیرون ممالک سے منگوا رہے ہیں۔ ابھی یہاں وکیل صاحب بول رہے تھے۔ یہ وہ وکیل ہیں جن سے فیس لیتے ہیں ان کے خلاف بات کرتے ہیں۔سندھ میں این ایچ اے نے ایک بھی موٹروے نہیں بنائی۔خورشید شاہ کو پابند سلاسل کر رکھا ہے۔اردو کا اپنا احترام ہے مگر دیگر زبانیں بھی قابل عزت ہیں۔ معاون خصو صی برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہاکہ اپوزیشن لیڈر نے چار دن اٹھک بیٹھک کی،کمر میں درد تھا ،لندن جانا تھا وزیر اعظم کے شفاعی بجٹ نے درد دور کر دیا ۔ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کورونا کا تھا،احسن طریقے سے ہینڈل کیا گیا ۔یہ امراءکا نہیں غریبوں کا بجٹ ہے ۔بات کرنے کی جگہ یہ اسمبلی ہے برطانیہ کی اسمبلی نہیں ۔

باہر سے بولیں گے تو اس سے زیادہ بولنے والے کو بھی مسترد کیا گیا ۔کہا گیا کہ ہنگامہ ہوا اور سپیکر نے کچھ نہیں کیا ۔آپ نے بلا تفریق ارکان کو معطل کیا ۔بھاگے ہوئے لیڈروں کو کہیں کہ وہ بھی واپس آئیں ۔عدالتیں پانامہ کا پوچھ پوچھ کر تھک گئیں ،جواب تو دیدو ۔صدارتی نظام کے لیے راہ ہموار کرنے کی بات کی جاتی ہے ۔جو ملک میں رہ نہیں سکتے وہ بڑے لائق ہیں ۔نالائق وہ ہیں جنہیں کے پی میں دوبارہ دو تہائی اکثریت ملی۔صدارتی نظام اور اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ،دونوں شوشے ہیں انکی تردید کرتا ہوں ۔کارگل کے شہداء کا خون ایک ناشتے اور فون کال پر رائیگاں کیا گیا ۔اب پاک سرزمین ڈرون حملوں سے محفوظ ہے ۔ہم کسی کے غلام نہیں ،اتحادی ضرور ہیں ۔اپوزیشن لیڈر سے سوال ہو رہا ہے،جواب نہیں مل رہا ۔یو این ڈی پی کے رپورٹ پڑھو،وزیر خزانہ اپنی بات خود کریں گے۔منظر بدل گیا ،نظام بدل گیا ،عادتیں بدلنے میں کچھ وقت لگے گا ۔کمیٹیوں میں بیٹھتے نہیں ،اور بات قانون سازی کی کرتے ہیں ۔بجٹ قومی اور پنجاب اسمبلی میں بھی بھاری اکثریت سے منظور ہو گا۔جانی خیل کے معاملے پر وزیرداخلہ اور سیکرٹری داخلہ سے بات کی ہے۔صوبائی قیادت سے بھی بات کی ہے ۔

کہا ہے کہ جرگہ کی صورت میں معاملہ حل کیا جائے۔ نواب شیر نے کہاکہ اس بجٹ کی غریب لوگ بھی تعریف کر رہے ہیں۔حکومت دیہات میں بھی بے گھروں کو گھر فراہم کرے۔ پانچ لاکھ گھر غریبوں میں مفت تقسیم کیے جائیں۔عمران خان نے کاشتکاروں کو فائدہ دیا ۔کسان خوشحال ہو گا تو ملک خوشحال ہو گا ۔ کسان کو مزید سہولت ملنی چاہیے ۔ کسان کو سولر پر سبسڈی دی جائے ۔ کھاد سستی ہونی چاہیے،ریسرچ سنٹرز کو فعال کیا جائے ۔ دو ہزار اٹھارہ والا گندم کا بیج بو رہے ہیں ۔سرکاری ملازمین پر مہنگائی کا اثر ہوتا ہے ۔ تنخواہوں میں دس فیصد سے زیادہ اضافہ ہونا چاہیے ۔ کسان زرعی ترقیاتی بنک سے فائدہ اٹھاتا تھا اب یہ بھی کمرشل بنک بن گیا ہے۔زرعی بنک کو ترقیاتی بنک بنایا جائے کمرشل بنک نہیں۔ نوشین افتخار نے کہاکہ ابھی یہاں ایک موصوف بیٹھے تھے جنہوں نے این اے 75 ڈسکہ کی بات کی ۔این اے ڈسکہ کے عوام نے ان کو دو مرتبہ مسترد کیا۔جو شخص خود کونسلر نہیں بن سکتا وہ باتیں کرتے ہیں۔یہ بچی ان کے مقابلے میں انتخاب لڑ کر آئی ہے۔عوام پوچھتی ہے سستا آٹا, سستی چینی اور سستی دوائی کیسے ملے گی۔15 ہزار ارب کے قرضوں کا پوچھیں تو کہتے ہیں کہ آپ چور ہیں۔

میرے والد نے وفات سے قبل 42 گاوں میں گیس کی منظوری کروائی۔این اے ڈسکہ میں ن لیگ کی تختیوں کی جگہ اپنی لگا لیں مگر عوام کو ریلیف دیں۔22 کروڑ عوام کے مسائل کا حل ان کے پاس نہیں ہے تو کرسی چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ڈسکہ کو مسلم لیگ ن کو ووٹ دینے کی سزا مل رہی ہے۔نوجوانوں کے لیے کتنے گراﺅنڈ اور یونیورسٹیاں بنائی ہیں۔ وزیرمملکت اطلاعات فرخ حبیب نے کہاکہ جب ہم حکومت میں آئے انہوں نے کہا یہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جا رہے۔جب ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے تو انہوں نے کہا پی ٹی آئی ایم ایف بن گئی ہے۔یہ خود پہلے بتائیں کہ انہون نے کرنا کیا ہے۔پیپلزپارٹی آٹھ بار اور ن لیگ تین بار آئی ایم ایف کے پاس گئی ہے۔جب حالات اتنے ہی اچھے تھے تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئی۔انکی عیاشیوں کا خرچہ عام آدمی برداشت کر رہا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بہتر حالات میں گفتگو کر رہے ہیں تو یہاں کیاجا رہا ہے آئی ایم ایف پروگرام منجمد ہو چکا۔پیپلز پارٹی اور ن لیگ بتائیں وہ آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے تھے۔آج ان کے لیے گئے قرضوں کے سبب تین ہزار ارب سود کی مد میں ادا کرنا ہے۔

آئی ایم ایف کے تمام ٹارگٹ حاصل کیے۔ہم ان کی طرح نہیں کہ جو پرچہ آئے مان لیا جائے۔اس جی ڈی پی کے لیے عمران خان کی تین سال کی محنت ہے۔آپ کے دور میں وزیر اعظم ہاو¿س کا بجٹ ایک ارب سے زائد تھا۔وزیر اعظم نے دو کروڑ روپے کی بچت کی ہے۔عمران خان 9600 ڈالر میں افغانستان کا دودہ کرتے ہیں۔امریکہ نواز شریف پانچ لاکھ کا دودہ کرتے ہیں۔آصف زرداری 7 لاکھ میں جاتے ہیں اور عمران خان 67 ہزار میں دورہ مکمل کرتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان جانتے ہیں چالیس فیصد عوام خط غربت سے نیچے ہے۔تعصب کی عینک اتاریں پتہ چلے کہ کسان خوشحال ہوا ہے۔آج کسان سے مل والے نے دروازے سے اڑھائی سے تین سو روپے من گناخریدا جا رہا ہے۔صوبوں کو پینتیس سو ارب روپے ٹرانسفر کیا جا رہا ہے، جو ریکارڈ ہے۔اپوزیشن کو گروتھ اس لیے نظر نہیں آتی کہ انکی کرپشن کی گروتھ رک گئی ہے۔عثمان بزدار اور مراد علی شاہ کا فرق میں آپ کو بتاتا ہوں۔سندھ نے تین سو تیرہ کے بجائے 243 ارب ریونیو جمع کیا۔پنجاب نے 317 ارب کے ٹارگٹ سے زائد 358 ارب ریونیو جمع کیا۔

سندھ حکومت سو ارب روپے کی سکیمیں بھی مکمل نہیں کر پاتے۔وفاق سے ملنے والا پیسہ بیرون ملک نہ بھیجو، آیان علی پر خرچ نہ کرو عوام پر خرچ کرو۔اس ملک کو بجلی نہیں سستی بجلی چاہیے۔مہمند ڈیم ، دیامیر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم عمران خان بنا رہا ہے۔آج دنیا گرین ڈپلومیسی پر عمران خان کو سراہا رہی ہے۔بریک فیل گاڑی سے اسحاق ڈار چھلانگ مار کر اتر گیا۔ہم اس گاڑی کو روک رہے ہیں۔ایل این جی ہر جو ڈیل ہم نے لی ہے وہ بہترین ہے۔آج بیرون ملک سے زرمبادلہ اس لیے زیادہ آ رہا ہے کہ عوام جانتے ہیں کہ عمران اس پیسے سے کھلواڑ نہیں کھیلے گا۔جس فیصل آباد کو مسلم لیگ ن ٹیکسٹائل کا قبرستان بنا گئی تھی اب وہاں رونقیں بحال ہیں۔ہمارا ویژن ہے کہ پاکستان میں صنعتی انقلاب لانا ہے۔یہ اندھوں میں کانے راجے ہیں۔

اس ملک کو ایک ہی شخص ٹھیک کر رہا ہے جس کا نام عمران خان ہے۔مسلم لیگ کے دور میں کریڈٹ کارڈ گروتھ تھی۔سکوک بانڈ پر تنقید کرنے والے بتائیں کہ سکولک بانڈز انھوں نے نہیں جاری کیے۔ کیااسحاق ڈار بتائیں کہ موٹر وے اور جناح انٹرنیشنل کو انھوں نے گروی نہیں رکھوایا تھا۔عمران خان کا قوم سے وعدہ ہے کہ میں بھی نہیں جھکوں گا نہ قوم کو جھکنے دیں گے۔ہمیں موٹرویز اور سڑکیں گروی رکھنے کے طعنے دینے والے بتائیں اسحق ڈار نے موٹروے گروی رکھی تھی کہ نہیں ۔عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ نہ وہ کسی کے آگے جھکیں گے نہ قوم کو جھکنے دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں