مالیاتی معیار

اتھارٹی کے اداروں میں اصلاحات ناگزیر ہیں،فلسطینی وزیراعظم

مقبوضہ بیت المقدس(عکس آن لائن)اگرچہ نئی فلسطینی حکومت کی تشکیل کے لیے ان کی ذمہ داری غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ کے جاری رہنے کے دوران حساس اور انتہائی مشکل حالات میں سامنے آئی تاہم نئے نامزد فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفی نے زور دے کر کہا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو قانونی میعاد کے اندر پیش کریں گے۔

انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے اداروں میں اصلاحات کا عزم ظاہر کیا۔عرب ٹی وی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ اصلاحات کو ایک ضرورت اور قومی مفاد کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کا حتمی مقصد ایک ٹھوس، مضبوط اور جوابدہ حکمرانی کے نظام کا حصول ہے۔ محمد مصطفی نے کہا کہ غزہ میں جنگ کی تباہی کے مرحلے سے باہر نکلنے کے حوالے سیانہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کے منصوبوں میں سنجیدہ اصلاحات شامل ہیں جن میں بہت سے شعبے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم مالیاتی معیار کو بہتر بنانے، شفافیت کے حصول، محصولات کو بڑھانے، اخراجات کو معقول بنانے، تعلیم اور تمام خدمات کو ترقی دینے، خاص طور پر صحت، افسر شاہی کے طریقہ کار کو بہتر کرنے، قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانے، بدعنوانی کے خاتمے، انسانی حقوق اور آزادی اظہار پر زور دینے کے علاوہ سول سوسائٹی اور نگران اداروں کے کردار کو مضبوط بنانے اور قانون سازی اور صدارتی انتخابات کی تیاری پر توجہ دیں گے۔

بین الاقوامی میڈیا میں فلسطینی اتھارٹی کے ایک کرپٹ اتھارٹی کے طور پر شہرت سے متعلق سوال پر پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد مصطفی نے کہا کہ ہماری پالیسی ہمارے قومی اداروں میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی کے لیے زیرو ٹالرنس پر مبنی ہے۔ ورلڈ بینک میں کام کے دوران اپنے عملی تجربے کے ذریعے اور ملک کے دیگر عہدوں پر ذمہ داریوں کے بعد میں بالکل سمجھتا ہوں ایک جوابدہ حکومت کا وجود نہ صرف بین الاقوامی حمایت اور ساکھ کو متحرک کرنے کے لیے بہت ضروری ہے بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے اپنے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔

جہاں تک جنگ کی وجہ سے ہونے والی تباہی اور بربادی کے موجودہ مرحلے سے گذرنے کے امکان کے بارے میں فلسطینی وزیر اعظم نے کہا کہ مختصر اور سیدھا جواب ہاں، لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیسے؟انہوں نے مزید کہا کہ ہم جو ہولناکیاں رونما ہو رہی ہیں اس کے پیمانے سے بخوبی واقف ہیں۔ فلسطین پر قبضے کے آغاز سے لے کر اب تک جس تباہی اور محرومی کا ہم نے تجربہ کیا ہے اور اس کا سامنا کر رہے ہیں، اس کا بیان یا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

6 ماہ سے بھی کم عرصے میں ہم نے 30,000 سے زیادہ شہدا کو کھو دیا اور یہ تعداد خوفناک ہے۔ چونکہ ان میں سے تقریبا 13،000 بچے ہیں تو یہ المیہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔اسرائیلی جنگی مشین نے غزہ کے تقریبا 60 فیصد گھروں کو تباہ کر دیا، جب کہ تعلیم اور صحت جیسے تمام نظام تباہ ہو گئے۔ پانی، خوراک اور بجلی سمیت غزہ کا پورا نظام درہم برہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ “مغربی کنارے میں جنگ اور جارحیت بھی بہت خطرناک ہے۔

اس جنگ میں اسرائیلی فوج اور آبادکاردونوں پیش پیش ہیں۔ آباد کاروں کے تشدد اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چوکیاں شہروں کو چھوٹی چھانیوں میں تبدیل کر رہی ہیں۔ ہماری معیشت ہمارے پیسے کی لوٹ مار ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ تنخواہیں ادا کرنا اور مستحکم زندگی گزارنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینی ایک ایسے خطرناک موڑ کا سامنا کر رہے ہیں جو ان بحرانوں کو برداشت کرنے اور ان سے نکلنے کے لیے اختراع کرنے کی صلاحیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنگ کے پیچھے چھوڑے جانے والے سانحات نے ایک بار پھر مسئلہ فلسطین کو دنیا کی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ “یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان عظیم قربانیوں کو رائیگاں نہ جانے دیں اور اس کے لیے جنگ آزادی کے عمل میں آخری جنگ ہو اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ختم کیا جائے۔انہوں نے اپنے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ دنیا اب حقیقی تبدیلی لانے کے لیے زیادہ پرعزم ہو چکی ہے۔

اس نے اس پیغام کو سمجھ لیا ہے کہ یہ تنازع فلسطینی عوام کے اپنے حقوق کے حصول کے بغیر ختم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اب یہ ضروری ہے کہ ایک واضح خاکہ تیار کیا جائے۔ غزہ کی پٹی میں جنگ اور انسانی تباہی کو روکنے کا راستہ تلاش کیا جائے۔ ایک روڈ میپ تیار کرنے کے لیے کام کیا جائے جو قبضے کے خاتمے اور مشرقی یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ 1967 کی سرحدوں پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف لے جائے۔انہوں نے غزہ میں جامع اور مستقل جنگ بندی کا بھی مطالبہ کیا جو ان جرائم کو ختم کرے اور خونریزی کو روکے۔

مشکل معاشی صورتحال کی روشنی میں اپنے وژن کے حصول کے لیے حکومت کے کام کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں محمد مصطفی نے کہا کہ “ہم پوری طرح جانتے ہیں کہ ہمارے وسائل پر قابض اسرائیل کا تسلط ہے۔ ہمارے پیسے کو لوٹا جا رہاہ ہے اور ہماری دہائیوں سے یہ ایک مشکل کام ہے۔ غیر ملکی امداد پر طویل انحصار مشکل ہے جو حالیہ برسوں میں بتدریج کم ہونا شروع ہوا ہے۔

لیکن انہوں نے مزید کہاکہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بیک وقت کئی راستوں پر کام کرنا ہوگا۔ مختصر مدت میں ہمیں اپنے پیسوں کی چوری کو روکنے کے لیے مالی ذرائع تلاش کرنا ہوں گے اور بین الاقوامی صورت حال کا فائدہ اٹھانا ہوگا۔ درمیانی مدت میں ہمیں پائیدار ذرائع کو تلاش کرنا اور سیاسی بلیک میلنگ روکنا ہوگا۔ طویل مدتی منصوبے میں ہمیں ایسے طریقہ کار پر کام کرنا ہوگا جو ان ذرائع کو پائیدار اور سیاسی بلیک میلنگ کے لیے حساس نہ بنائیں۔ ایک لچکدار قومی معیشت کی بنیاد رکھنے کے لیے صحیح راستے پر گامزن ہونا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں