تصویر کا زوال

تصویر کا زوال

تحریر:منصور آفاق

یہ 1992 کی کوئی گرم شام تھی، میرا 14 سالہ بھانجا حسن رضا عمران خان کے ساتھ تصویر بنوا کر بہت خوش تھا۔ اس کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا پوری ہو گئی تھی۔

اس نے جہازی سائز میں اُس تصویر کا پرنٹ نکلوایا پھر بڑے چاؤ سے بازار جا کر اپنی پسند کا فریم بنوایا۔ تصویر کا چوکٹھا تصویر سے کسی طرح کم نہ تھا۔ گھر کے ڈرائنگ روم میں انگیٹھی کے اوپر مولانا عبدالستار خان نیازی کی تصویر لگی ہوئی تھی، اُس نے لڑ جھگڑ کر وہ تصویر اتروائی۔ اسے دوسری طرف لگایا گیا اور اُس کی جگہ کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح کی تصویر لگوا دی۔

وقت گرزتا گیا، وہ تصویر ڈرائنگ روم کی دیوار کا ایک حصہ بن کر رہ گئی۔ میں نے ہمیشہ نوٹ کیا کہ دوسری تصویروں پر کچھ نہ کچھ گرد پڑی ہوتی ہے مگر عمران خان کی تصویر ایسے چمک رہی ہوتی ہے جیسے اس پر شیشہ ہے ہی نہیں۔ یقیناً اس پر پڑنے والی گرد ہر روز صاف کی جاتی تھی۔

عمران خان سیاست میں آگئے۔ انہوں نے پہلا الیکشن لڑا۔ ان کا حلقہ میانوالی شہر سے آگے شہباز خیل سے شروع ہوتا ہے اور درہ تنگ تک چلا جاتا ہے۔ میرے بھانجے اگرچہ میانوالی شہر میں رہتے ہیں مگر ان کا آبائی گھر روکھڑی میں ہے۔ روکھڑی، میانوالی سے دس بارہ کلو میٹر شمال کی طرف ایک قصبہ ہے۔ وہ عمران خان کے حلقے میں شامل ہے۔ حسن رضا نے گھر والوں کو زبردستی ساتھ لیا اور روکھڑی پہنچ گیا۔

جتنی ممکن تھی عمران خان کے لئے مہم کی مگر عمران خان ہار گئے لیکن ڈرائنگ روم میں لگی تصویر کی چمک دمک اُسی طرح برقرار رہی۔ شکست کھا کے بھی عمران خان کی طرح حسن رضا کے حوصلے جوان رہے کہ
؎
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں

وہ روز بس اسٹینڈ پر مرحوم سعید خان کی دکان پر جاتا رہا جسے انہوں نے بعد میں پی ٹی آئی کے دفتر میں بدل دیا تھا۔ سعید خان عمران خان کے قریبی عزیز تھے، میانوالی میں ان کی انتخابی مہم کے انچارج بھی۔ سعید خان نے الیکشن ہارنے کے باوجود انتخابی مہم جاری رکھی بلکہ انتخابات کے دوران بھی اگر کسی نے کہا کہ سوری ہم تو مخالف امیدوار کو ’’دعائے خیر‘‘ دے چکے ہیں تو سعید خان نے کہا، کوئی بات نہیں ہمیں اگلے پانچ سال کی ’’دعائے خیر‘‘ دے دیں۔

لوگ شامل ہوتے رہے، کارواں بنتا رہا۔ تحریک انصاف میانوالی میں پھیلتی رہی۔ دوسرا الیکشن جیت لیا گیا۔ عمران خان میانوالی سے ایم این اے بن گئے۔ تصویر کی رونق میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔

میں پاکستان سے برطانیہ شفٹ ہو گیا تھا۔ کوئی پانچ سال بعد دوبارہ اُس ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو مجھے لگا کہ تصویر تو وہی مگر فریم بدل دیا گیا ہے۔ تصدیق کی تو پتا چلا کہ فریم کا رنگ ذرا سا خراب ہو گیا تھا، سو بدل دیا گیا ہے۔ یعنی اُس گھر میں عمران خان سے محبت کم نہ ہوئی بلکہ بڑھتی چلی گئی۔

2013 کے انتخابات آ گئے۔ صاف نظر آنے لگا کہ اگلی حکومت عمران خان کی ہے مگر انتخابی مہم کے دوران وہ خاصے بلند اسٹیج سے گرے اور اسپتال پہنچ گئے۔ میں نے اُس وقت اپنے بھانجے کو روتے ہوئے دیکھا۔ اسے شاید اپنے سارے خواب کرچیاں ہوتے نظر آ رہے تھے۔ اسے لگ رہا تھا کہ نیا پاکستان جو لبِ بام تھا، وہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ آخری امید اسپتال کے بیڈ پر جا پڑی ہے۔ جس پر پھول کھلنے تھے وہ شاخ ٹوٹ گئی ہے۔

اللہ کا کرم ہوا اور عمران خان کچھ دنوں میں صحت یاب ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے اسے لوگوں کی دعاؤں کا ثمر قرار دیا۔ اُن انتخابات میں جو بھی ہوا مگر اُس کے دامن سے جو ’’دھرنا‘‘ طلوع ہوا اُس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ وہ نئے پاکستان کی تمہید بنتا چلا گیا اور آخرکار 2018 حسن رضا کی آنکھوں کا تارا، ماؤں بہنوں کا دلارا، تبدیلی کے متوالوں کا پیارا، پاکستان کا وزیراعظم بن گیا۔

ہر چہرہ یقین کے نور سے بھر گیا۔ دلوں میں نئے پاکستان کی آمد دھڑکنوں کی طرح بجنے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ کھلے ہوئے چہرے مرجھانے لگے مگر عمران خان کو چاہنے والوں کی توقعات کے پھاٹک بند نہیں ہوئے بلکہ ابھی تک کھلے ہوئے ہیں۔ ابھی تک سارے ’’نئے پاکستان‘‘ کے دروازے پر جمع ہیں۔ حسن رضا بھی انہی میں ہے۔ تین ہفتے پہلے ملاقات ہوئی تو اُس نے کہا “اس قوم کی ڈوبتی کشتی کو صرف عمران خان ہی منزل تک پہنچا سکتا ہے”۔

پچھلے ہفتے میں جب اُس ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو میں نے بےیقینی سے انگیٹھی کے اوپر خالی دیوار کی طرف دیکھا کہ کہیں میری آنکھیں دھوکا تو نہیں کھا رہیں۔ دیوار پر وہ تصویر موجود نہ تھی۔ حسن نے میرے کچھ کہنے سے پہلے کہا “تصویر میں نے نہیں، بیگم صاحبہ نے اتاری ہے، آپ اسے سمجھائیں”۔

میں نے اُس کی بیگم سے کہا “یہ اچھی بات نہیں ہے۔ خالی دیوار بری لگ رہی ہے”۔ تو کہنے لگی۔

“میں یہاں کسی اور کی تصویر تو لگا دوں گی مگر اُس کی نہیں۔ میں تو اسے آگ لگانے لگی تھی مگر بچوں نے چھین لی ہے۔

اس شخص نے ہمارے ملک کو تباہ کر دیا ہے، لوگ فاقوں پر آ گئے ہیں، ہمارے گھر میں جو نوکرانی اور نوکر کام کرتے ہیں، وہ پہلے آدھا دن کہیں اور بھی کام کرتے تھے۔ انہیں دونوں گھروں سے جواب مل گیا ہے کہ اس مہنگائی میں ہمارے لیے ملازم رکھنا ممکن نہیں۔

میں کیا بتاؤں آپ کوکیسی کیسی کہانی سناؤں۔ غریب کی حالتِ زار آپ یا آپ کا عمران خان کیا جانے؟ آپ کو کیا پتا کہ جھونپڑیوں میں رہنے والوں کی رات کیسے کٹتی ہے۔ یہ اپنا نیا پاکستان جاکر کسی ڈسٹ بن میں پھینک دیجئے”۔

اتنی دیر میں اُس کا بیٹا طلحہ اندر سے تصویر اٹھا لایا، اس امید پر کہ شاید دوبارہ لگا دی جائے گی۔

ماں نے جب تصویر دیکھی تو چیخ کر بولی ’’اب یہ تصویر اس گھر میں ہو گی یا میں‘‘۔

میں نے خاموشی سے باہر نکل جانا مناسب سمجھا۔ حسن نے وہ تصویر پکڑ لی اور میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ ہم دونوں باہر گلی میں آ گئے۔ میں سوچنے لگا معاشرے میں ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔ حسن کی بیگم پہلے تو اتنی تیز مزاج نہ تھی۔

اِسی دوران میرے کانوں میں حسن کی افسردہ اور مایوسی بھری آواز گونجی “کسی طرح خان کو بتائیے کہ غریب کیلئے زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ کچھ کر سکتے ہیں تو فوری طور پر کر دیں وگرنہ غریبوں کی آہیں آسمان چیر دیں گی”۔ میں نے تصویر کی طرف دیکھا تو اُس میں عمران خان کا چہرہ دھندلا تھا۔ میں نے پوچھا “یہ تصویر دھندلی کیوں ہو گئی ہے؟” حسن نے تیزی سے گردن گھما کر تصویر کی طرف دیکھا اور کہا “نہیں! بالکل صاف ہے”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں