چھاتی کا کینسر

چھاتی کا سرطان قابل علاج ، پاکستان میں سالانہ 90ہزار کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں’پرنسپل پی جی ایم آئی

لاہور( عکس آن لائن ) پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و معروف گائناکالوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر نے کہا ہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں پرخواتین میں بریسٹ کینسر کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور صرف پاکستان میں ہی سالانہ90ہزار کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں جو انتہائی تشویشناک امر ہے ۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر الفرید ظفر کا کہنا تھا کہ دن بدن بڑھتے ہوئے چھاتی کے سرطان کی روک تھام کیلئے ہمیں اپنے سماجی رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی اور بریسٹ کینسر کو بدنما داغ تصور کرنے کی بجائے خواتین کواعتماد دینا ہوگاتاکہ وہ کسی تکلیف کی صورت میں اپنے معالج سے رجوع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں ۔

انہوں نے کہا کہ چھاتی کا کینسر قابل علاج مرض ہے ،اکثر مریض مرض کی بر وقت تشخیص ہونے پرفوری علاج معا لجے سے صحت یاب ہو جاتے ہیں اور کینسر کے بگڑنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میںپروفیسر الفرید ظفر نے کہا کہ چھاتی یا بغل میں بننے والی ہر گلٹی کینسر کی علامت نہیں ہوتی ،زیادہ تر بغیر تکلیف اور درد کے بننے والے ٹیومر کینسر کی شکل اختیار کر لیتے ہیں لہذا خواتین کو چاہیے کہ وہ بریسٹ اور بغلوں کا باقاعدگی سے خود معائنہ کریں اور معمول سے ہٹ کر اگر کوئی علامت ظاہر ہو تو معالج سے رابطہ کرنے میں تاخیر نہ کریں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو سال میں 2مرتبہ میمو گرافی ٹیسٹ کرانے چاہئیں اور اپنے معالج سے بھی رابطہ رکھیں تاکہ ایسے مرض کی فوری تشخیص اور علاج معالجہ ممکن ہو سکے ۔

انہو ں نے بتایا کہ گزشتہ سال لاہور جنرل ہسپتال میں 300میمو گرافی ٹیسٹ کئے گئے۔حاملہ خواتین میں بریسٹ کینسر ہونا غیر معمولی بات ہے لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ علاج معالجہ ایسا ہو جس سے مرض بھی ختم ہو جائے، جسم میں کینسر مزید نہ پھیلے اور بچے کی صحت پر منفی یا علاج کے ضمنی اثرات مرتب نہ ہوں ۔ پرنسپل پی جی ایم آئی پروفیسر الفرید ظفر نے کہا کہ مشرقی اور مغربی روایات اور سماجی اقدارکی وجہ سے خواتین اور نوجوان لڑکیاں اپنی چھاتی میں کسی قسم کی تبدیلی یا تکلیف کا اپنے والد ین یا قریبی عزیز سے تذکرہ نہیں کرتیں جو آگے چل کر جان لیوا مرض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تکلیف بڑھ جانے کی وجہ سے سرجری ناگزیر ہے اور مریض کے جسم سے سرطان کو مکمل ختم کرنے کیلئے کیموتھراپی ، ریڈی ایشن اور دیگر مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور بہت سے کیسز میں ساری عمر ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیںلہذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ اگر نوجوان بچیاں مذکورہ تکلیف کے بارے میں بتائیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے معائنہ کروا کر تشخیص کروائیں تاکہ بیماری کی روک تھام ہو سکے۔ پروفیسر الفرید ظفر کا مزید کہنا تھا کہ بریسٹ کینسر سے محفوظ رہنے کیلئے خواتین روزمرہ معاملا ت میں تبدیلی لائیں ، ورزش اور سیر و تفریح کیلئے وقت نکالیں، وزن بڑھنے نہ دیں، بچے کی پیدائش سے لے کر مقررہ مدت تک لازماً اپنا دودہ پلائیں۔ صحت مند غذا خاص طور پر پھل اور سبزیاں زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں