سینیٹر اسحاق ڈار

نیب ترامیم نہ ہوتی پھر بھی عدالت کو مجھے بری ہی کرنا تھا،اسحاق ڈار

جنیوا (عکس آن لائن)سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اگر نیب ترامیم کا قانون نہ آتا تو بھی عدالت انہیں میرٹ پر بری کردیتی کیونکہ استغاثہ ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا تھا۔خصوصی بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت نے ان کے خلاف کیس نیب کو واپس نہیں بھیجا تھا بلکہ بند کردیا تھا۔سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ ان کے کیس میں واجد ضیا نے لکھا تھا کہ اسحاق ڈار کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا، پراسیکیوشن ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا۔

انہوںنے کہاکہ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے، ان کے تمام اثاثہ جات ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کے پاس ڈکلیئرڈ ہیں۔یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 شقیں کالعدم قرار دیدیں۔عدالتی فیصلے میں کہاگیا کہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست قابل سماعت قرار دی جاتی ہے، 500 ملین کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دی جاتی ہے تاہم سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شقیں برقرار رکھی جاتی ہیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں، عوامی عہدوں کے ریفرنس ختم ہونے سے متعلق نیب ترامیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں، نیب ترامیم کے سیکشن 10 اور سیکشن14 کی پہلی ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بحال کردیے اور عدالت نے کہا کہ تمام ختم انکوائریز،کیسز بحال کیے جاتے ہیں، تمام کیسز نیب عدالتوں اور احتساب عدالتوں میں دوبارہ مقرر کیے جائیں۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے پر اختلاف کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں