عرفان صدیقی

نواز شریف کی واضح ہدایت تھی منشور میں ایساکوئی نعرہ نہیں رکھنا جس پر ہم عملدرآمد نہ کرسکیں، عرفان صدیقی

لاہور(عکس آن لائن)پاکستان مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کے چیئرمین عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ منشور کی تیاری کا ہدف سونپتے ہوئے نواز شریف کی واضح ہدایت تھی کہ منشور میں ایساکوئی نعرہ نہیں رکھنا جس پر ہم عملدرآمد نہ کرسکیں ،کوئی ایسا خواب نہ دکھانا جو بکھر جائے اور تعبیر نہ لا سکیں ،

یہ بھی ہو سکتا تھامیں قیادت کو آٹھ ،دس نکات لکھ کر دے دیتا کہ کسی جلے میںپڑھ کر سنا دیتے یہ منشور ہے لیکن ہم نے جو منشور پیش کیا ہے وہ واقعی ہے ،سنجیدہ جماعت نے سنجیدہ دستاویز تیار کی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آئندہ عام انتخابات کے لئے منشور پیش کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے لاہور والوں نے سورج نہیں دیکھا اور شہر دھند میں لپٹا ہوا تھا لیکن جیسے ہی ہمارا منشور پیش ہوا یہ دھند چھٹ گئی اور سورج پوری آب و تاب سے نکلا ہواہے ، میں سنہری دھوپ کی چمک کر دیکھ کر آیا ہوجو اچھا اور نیک شگون ہے ۔

انہوںنے کہا کہ نومبر میں قائد ین نے مجھے منشور کی تیاری کا کام سونپا تھا اور ایک جو خصوصی ہدایت کی گئی تھی اس کا نقطہ یہ تھا منشور میں ایسی کوئی نعرہ نہیں رکھنا جس پر ہم عملدرآمد نہ کرسکیں ،کوئی ایسا خواب نہ دکھانا جو بکھر جائے اور تعبیر نہ لا سکیں ، قیادت کی واضح ہدایات تھیں کہ کن کن طبقات کو اور مسائل کو اہمیت دینی ہے ، مختلف مراحل میں مجھے قیادت کی پوری رہنمائی اور مشاورت حاصل رہی ۔

انہوںنے کہا کہ یہ تنقید کی جاتی رہی کہ مسلم لیگ (ن) کے منشور کے اجراء میں تاخیر ہو رہی ہے یہ اس لئے ہوتی رہی کہ مسلسل اصلاحات او ر ترامیم کا عمل جاری رہا، ہم یہ طے کرتے تھے کہ منشور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ذرائع اور وسائل کہاں سے آئیں گے،یہ سنجیدہ جماعت کی سنجیدہ کوشش تھی ۔قیادت نے اس کے لئے 32ذیلی کمیٹیاں تشکیل دیں جس میںپارٹی کے نامور رہنما شامل تھے اور میں سب کا شکر گزار ہوں ،ان کمیٹیوںنے ہر شعبے کے حوالے سے بڑی تفصیلی رپورٹس دیں ،مسلسل ترامیم ،اضافہ اور اصلاحات ہوتی رہیں اور یہ عمل آج صبح تک جاری رہا ۔

اس میں قائد مسلم لیگ (ن) خود دلچسپی لیتے رہے اور روزانہ کی بنیاد پرجائزہ لیتے رہے ۔انہوںنے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا تھاکہ میں قیادت کو آٹھ ،دس نکات لکھ کر دے دیتا کہ کسی جلے میںپڑھ کر سنا دیتے یہ منشور ہے ، لیکن ہم نے جو منشور پیش کیا ہے وہ واقعی ہے ،یہ ایک دستاویز ہے ، ہم نے اپنی ماضی کی کارکردگی کو بھی منشور کا حصہ بنایا ہے کہ اگر ہم نے 2013میں وعدہ کئے تھے تو 2018میں خرابیوں ،دھرنوں اورہنگاموں کے باوجود ہم نے کیا کام کئے اور جو وعدے کئے تھے وہ پورے ہوئے کہ نہیںہوئے ۔

انہوںنے کہا کہ آج ہمارے ملک میںجو تیس سال کا نوجوان ہے اس نے گزشتہ پچیس تیس سالوں میں ہر طرح کی حکومتیں دیکھ لی ہیں ، اسنے مارشل لاء کی حکومت بھی دیکھ لی ،اس نے پیپلزپارٹی ،ہماری حکومت بھی دیکھ لی جو حقیقتاً چار سال تھی ، پھر اس نوجوان نے پی ٹی آئی کے کی چار سال کی حکومت ،نگران اور مخلوط حکومت بھی دیکھ لیں، آج کا نوجوان سب دیکھ چکا ہے اور اس کیلئے فیصلہ کرنا بہت آسان ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہاںجو حکومتیں رہی ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ جنہوں نے پانچ سال حکومت کی انہوںنے بڑے بڑے پانچ کام کون سے کام کئے ،پی ٹی آئی نے چار سالوںمیں چار بڑے کام کیا کئے ہیں ، میاں صاحب سے پوچھاجائے انہوںنے چار سال گزارے ہیںانہوںنے کیاگیا ۔ ہمارا منشور عہد کا دیپاچہ ہے اور آنے والے دنوں کا منظر نامہ بھی ہے ۔

انہوںنے کہا کہ ہم سولہ ماہ کی حکومت میں ملک دیوالیہ پن کے کنویں کے منڈھیر پر تھا ا س کو کنویں میں گرنے سے بچایا ، اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا ، خدا نخواستہ اگر ہم ڈیفالٹ کر جاتے تو اس کے ملک پر کیا منفی اثرات ہوتے۔ان شا اللہ ہمیںموقع ملا تو ہمارا منشور نشور نما پائے گا اور پایہ تکمیل تک بھی پہنچے گا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں