اقوام متحدہ

ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں بچوں کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے، اقوام متحدہ رپورٹ

اقوام متحدہ (عکس آن لائن) بین الاقوامی صحت کے ماہرین نے کہا ہے کہ کوئی بھی ملک بچوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کر رہا جو بچوں کی صحت، ماحول، مستقبل اور مواقع کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جاری کی گئی نئی رپورٹ میں دنیا کے 180 ممالک سے متعلق اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ گرین ہاؤس گیس کے اخراج، عدم مساوات کے خاتمے اور درخت لگانے کے زریعے نوجوانوں کی بقاء اور ترقی کی منازل طے کرنے کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت، اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسیف اور لینسٹ میڈیکل جرنل کی رپورٹ میں یونیورسٹی کالج لندن میں گلوبل ہیلتھ اینڈ سسٹین ایبلٹی کے پروفیسر اینتھنی کوسٹیلو نے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی ملک بچوں کی صحت مند افزائش اور مستقبل کے لیے ایسے اقدامات نہیں کر رہا ہے اور بچوں کو ماحولیاتی تبدیلی اور کمرشل مارکیٹنگ کے باعث خاص طور پر فوری خطرہ درپیش ہے جس میں گزشتہ دہائی میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ ان ممالک میں عدم مساوات کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی بچوں کو متاثر کرنے کے ذمہ دار ہیں اور برطانیہ جیسے امیر صنعتی ممالک میں بھی عدم مساوات اور بچوں کی غربت کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غریب ممالک کو اپنے بچوں کی صحت کے لیے طویل سفر طے کرنا ہے لیکن امیر ممالک کاربن کے بہت زیادہ اخراج کے باعث بچوں کے مستقل کے لیے خطرہ ہیں اور ہم ماحولیاتی تبدیلی پر سویڈن کی کارکن گریٹا تھنبرگ کی اس بات سے متفق ہیں کہ ہماری دنیا ماحولیاتی تبدیلی کے باعث خطرے میں ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بچوں کے مستقبل کا معیار زندگی اور موت کی شرح، تعلیم کا تناسب، غذائی ضروریات اور عدم مساوات کے درجات پر منحصر ہے اور 2030 ء کے مقررہ اہداف پر عمل کرنے والے ممالک ہی کاربن کے اخراج میں کمی لا سکتے ہیں جبکہ بچوں کی نشونما کے اقدامات میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں البانیا، آرمینیا، گریناڈا، اردن، مالدووا، سری لنکا، تیونیس، یوروگوائے اور ویتنام شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 175 ملین بچے موٹاپے کا شکار ہیں اور صحت کو نقصان پہنچانے والے اشتہارات کے زریعے مشروبات، فاسٹ فوڈ، الکحل اور سگریٹ نوشی کی طرف مائل ہو کر اپنی صحت کو متاثر کرتے ہیں جن میں برازیل، چین، بھارت اور نائجیریا شامل ہیں جہاں 5 سے 6 سال کی عمر کے دو تہائی بچے کم از کم ایک سگریٹ برانڈ کے لوگو کو باآسانی شناخت کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض ممالک میں ایک سال میں 30 ہزار ٹی وی اشتہارات دکھائے جاتے ہیں اور اشتہارات بچوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں مثال کے طور پر امریکہ میں بہت سے بچے ایک دن میں الکحل کے 4 اشتہارات دیکھتے ہیں لہذا ان خطرات کے باوجود اب سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے ہدف بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے خطرناک بات یہ بھی ہے کہ اشتہاری کمپنیوں کی طرف سے بنائی گئی بہت سی گیمز میں بڑے بچوں کے ڈیٹا کو بغیر کسی اجازت کے بڑی آن لائن کمپنیوں و فروخت کیا جاتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا بچوں کی زندگیوں پر زیادہ اثرانداز ہوتا ہے اور مسلسل انٹرنیٹ کے ساتھ منسلک رہنے والے نوعمر اور بچوں کو جنسی استحصال اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کو اس بات کی آگاہی دی جائے کہ وہ اشہارات کے ساتھ فون کا زیادہ استعمال نہ کریں اور اپنا ڈیٹا چوری ہونے سے بچائیں اور اس کے ساتھ ساتھ عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک کمی کرنے کے لیے کاربن کے اخراج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں