فضل الرحمن

عورت مارچ میں ہونے والی فحاشی کی اسلام اور جمہوریت میں اجازت نہیں، فضل الرحمن

ملتان (عکس آن لائن)جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عورت مارچ میں ہونے والی فحاشی کی اسلام اور پاکستان کی جمہوریت میں اجازت نہیں خواتین مارچ بے حیائی اور مغرب زدہ معاشرے کو پاکستان میں لانے کی یہودی سازش ہے،

ا ۔ وہ وعدے عوام کے سامنے لانا پڑیں گے جس پر دھرنا ختم کرایا گیا،بلدیاتی انتخابات کسی صورت قبول نہیں، صرف جنرل الیکشن کو تسلیم کریں گے،ملتان میں مدرسہ قاسم العلوم میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ عورت مارچ میں ہونے والی فحاشی کی اسلام اور پاکستان کی جمہوریت میں اجازت نہیں ہے ، عورت مارچ کے ذریعے مغربی ایجنڈے کو پاکستان میں عام کرنے کی سازش ہے۔ پاکستان کی ایک فیصد سے بھی کم خواتین فحاشی کی علمبردار ہیں جو پورے پاکستان کی خواتین کے حقوق کی بات نہیں کرسکتیں۔

خواتین کو حقوق اسلام نے دیئے ہیں انہوں نے کہاکہ پاکستان میں حالات ٹھیک نہ ہوئے تو انقلاب آسکتا ہے، ہمارے کاروباری افراد پیسہ نکال کر باہر جا رہے ہیں، معیشت کی تباہی سے جغرافیہ تبدیل ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سوچ ملک اور ریاست کو بچانا ہے جب کہ اپوزیشن متحد ہوتی ہے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں، اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو بڑا کردار ادا کرنا ہوگا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم سے معاہدہ کرنے والے اپنا کردار ادا کریں، ہمیں مجبورا وہ وعدے عوام کے سامنے لانے پڑیں گے جس پر ہمارا دھرنا ختم کرایا گیا، جس نے کہا تھا کہ جنوری آخری مہینہ ہو گا ان کو جلد سامنے لائیں گے، ہم نے کسی اور کی بات مانی ہے تاہم ق لیگ کا چہرہ دکھایا گیا تھا، ق لیگ کے پاس کوئی اختیار ہے ہی نہیں۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کا کہنا تھا کہ ہمارے نظام میں ایسے عناصر موجود ہیں جو ختم نبوت کے معاملے پر حملہ کرتے ہیں ،حج فارم میں ختمِ نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کی کوشش پر وزیرِ مذہبی امور کی وضاحت کو کافی نہیں سمجھتے، کچھ قوتیں تو ہیں جو پسِ پردہ رہ کر یہ کروانے کی کوشش کر رہی ہیں انہوں نے کہاکہ بلدیاتی الیکشن سے ملک میں انارکی پھیل جائے گی، بلدیاتی انتخابات کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے، ہم صرف جنرل الیکشن کو تسلیم کریں گے مولانا نے کہاکہ افغانستان اور امریکا کے درمیان ہونے والا معاہدہ امن کی طرف اچھی پیش رفت ہے، بہت سے لوگ امن معاہدے سے خوش نہیں، ہمیں کمزور پہلووں کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنا چاہیے اور معاہدے پر عمل کرنا چاہیے، اس طرح کے معاہدوں کے بعد کچھ قوتیں معاہدوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتی ہیں، افغانستان میں صاحبِ اقتدار لوگ اس معاہدے کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ نے کہا کہ افغانستان میں امن کے متلاشی خطے کے ممالک نے اس امن معاہدے کو سراہا ہے، وہاں 20 سال کے بعد امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہو رہا ہے، ہمیں اس معاہدے کو افغانستان میں مستقل امن کے قیام کی طرف بڑھانا چاہیے، ابتدا میں اس طرح کے فیصلوں پر کچھ مشکلات آتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس معاہدے کی کسی طرف سے خلاف ورزی پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے، معاہدے کی خلاف ورزی کو سفارتی سطح پر اٹھانا اور احتجاج کرنا کافی ہے، طاقت کے ذریعے معاہدے کو سبوتاژ نہ کیا جائے، خلاف ورزی کو معاہدے میں شریک ممالک کے علم میں لانا چاہیے۔

مولانا فضل الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی قوتیں اپنے مفادات کے تحت افغانستان میں امن نہیں چاہتیں، وہاں اقتدار میں موجود لوگوں کیاپنے سیاسی مفاد ہیں، سازشیں، افواہیں اور غلط فہمیاں پیدا کر کے امن معاہدے کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں