اسلام آ باد (عکس آن لائن) سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک بات تو طے ہے جس جماعت کی جتنی نمائندگی ہے اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی،قانون میں کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟
جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کی اسکیم ہی یہ ہے کہ مینڈیٹ کا احترام کیا جائے ۔ پیر کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر اپیل پر سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی کے آزاد جیتے ہوئے اراکین اسمبلی نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا 7 امیدوار تاحال آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی کا حصہ ہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کیا پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے بتایا کہ پی ٹی آئی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا آزاد اراکین کو کتنے دن میں کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی نے بتایا آزاد اراکین قومی اسمبلی کو 3 روز میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا اگر کسی سیاسی جماعت کے پاس انتخابی نشان نہیں ہے تو کیا اس کے امیدوار نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے؟
جس پر فیصل صدیقی کا جواب تھا کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ لے کر پارلیمانی جماعت بن سکتی ہے، دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت انتخابات میں حصہ نہ لے اور آزاد جیتے ہوئے اراکین اس جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا سیاسی جماعتوں کے درمیان مخصوص نشستوں کی تقسیم کس فارمولے کے تحت ہوتی ہے، سیاسی جماعت کیا اپنی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں لےگی یا زیادہ بھی لے سکتی ہے؟ وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کوئی سیاسی جماعت اپنے تناسب سے زیادہ کسی صورت میں مخصوص نشستیں نہیں لے سکتی۔ مخصوص نشستوں پر نامزد خواتین ارکان اسمبلی کی جانب سے بینچ پر اعتراض اٹھایا گیا اور وکیل خواتین ارکان کا کہنا تھا یہ آئین کے آرٹیکل 51 کی تشریح کا مقدمہ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت کیس 5 رکنی بینچ سن سکتا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بھی 3 رکنی بینچ پر اعتراض کر دیا گیا اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ اپیلیں لارجر بینچ ہی سن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بینچ پر اعتراض مسترد کر دیا اور جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تو ابتدائی سماعت ہے، اگر اپیلیں قابل سماعت قرار پائیں تو کوئی بھی بینچ سن لے گا، اس اسٹیج پر تو 2 رکنی بینچ بھی سماعت کر سکتا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا سیاسی جماعت کو جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا قانون میں کہاں لکھا ہےکہ بچی ہوئی نشتسیں انہی سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پبلک مینڈیٹ کی حفاظت کرنی ہے، اصل مسئلہ پبلک مینڈیٹ کا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا قانون میں کہاں لکھا ہے کہ انتخاباتی نشان نہ ملنے پر وہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑ سکتی؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا یہی سوال لےکر الیکشن سے قبل میں عدالت گیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ایک بات تو طے ہے جس جماعت کی جتنی نمائندگی ہے اتنی ہی مخصوص نشستیں ملیں گی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کیسے ممکن ہےکہ کسی کا مینڈیٹ کسی اور کو دے دیا جائے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے کیس کا ریکارڈ فوری طلب کر لیا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سن فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، آئین کی اسکیم ہی یہ ہے کہ مینڈیٹ کا احترام کیا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا ہمارے لیے کوئی سیاسی جماعت متعلقہ نہیں، دیکھنا یہ ہےکہ عوام کے مینڈیٹ کی اس میں جھلک ہے یا نہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا سنی اتحاد کونسل نے وفاق کو فریق ہی نہیں بنایا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا وفاق اگر پارٹی نہیں بھی تب بھی نوٹس کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل کو بلائیں، حکام الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل ساڑھے 11 بجے پیش ہوں۔