256

توہین عدالت کیس میں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو 6 ماہ ،ایس ایس پی آپریشنز کو 4 ماہ اور ایس ایچ او کو 2 ماہ قید کی سزا سنادی

اسلام آباد (عکس آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی غیر قانونی گرفتاریوں کے کیس میں توہین عدالت پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز کو 6 ماہ، ایس ایس پی آپریشنز کو 4 ماہ اور ایس ایچ او کو 2 ماہ قید کی سزا سنادی۔

سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی اور شاندانہ گلزار کی غیر قانونی گرفتاریوں کے کیس میں عدالتی حکم عدولی پر ڈی سی اسلام آباد اور ایس ایس پی آپریشنز کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کا محفوظ شدہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے سنایا۔آئی جی اسلام آباد، ڈی سی اسلام آباد، ایس ایس پی آپریشنز اور ایس پی صدر عدالت میں پیش ہوئے۔فیصلے میں کہا گیا کہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد عرفان نواز میمن، ایس ایس پی آپریشنز ملک جمیل ظفر توہین عدالت کے مرتکب قرار پائے ہیں۔

فیصلے کے مطابق ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو 6 ماہ قید کی سزا اور جرمانہ کیا گیا ہے، جبکہ ایس ایس پی آپریشنز کو 4 ماہ جیل اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے، ایس ایچ او کو بھی دو ماہ جیل اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔ایس پی صدر کو توہین عدالت کیس میں بری کر دیا گیا ہے۔عدالت نے عدالتی آرڈر کی کاپی وزیراعظم پاکستان کو بھیجنے کی ہدایت کی ہے۔مختصر سزا ہونے کی وجہ سے عدالت نے ایک ماہ کیلئے سزائیں معطل کر دیں۔

عدالت نے کہاکہ30 روز میں اپیل کا وقت ہے، اپیل خارج ہوئی تو افسران جیل جائیں گے۔دریں اثنا اسلام آباد پولیس نے کہا ہے کہ فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کریں گے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں پولیس نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کے افسران اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے اپنے جائز اختیارات قیام امن عامہ کیلئے استعمال کیے۔

بیان میں کہاگیا کہ اسلام آباد کیپیٹل پولیس اپنے فرائض منصبی تندہی سے ادا کرتی رہے گی، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ، ایس ایس پی آپریشنز اور ایس ایچ او عدالت کے حتمی فیصلے تک اپنے عہدوں پر کام کرتے رہیں گے۔دریں اثناء ڈی سی کی جانب سے سنگل بینچ فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی۔

اپیل میں موقف اپنا گیا ہے کہ مئی 2023 میں ایس ایس پی آپریشنز کی فراہم کردہ معلومات پر میٹننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او)کے تحت نظر بندی کے احکامات جاری کیے گئے۔اپیل میں کہا گیا ہے کہ 2 جون 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے نظر بندی کے احکامات کو غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا۔کہا گیا کہ اس کے بعد راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے نظر بندی کے متعدد احکامات جاری ہوئے جس سے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کا کوئی تعلق نہ تھا، سنگل رکنی بینچ نے راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کے خلاف کوئی توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی۔

ڈپٹی کمشنر نے اپیل کی کہ 5 اگست 2023 کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری ہوئی، 8 اگست 2023 کو انٹیلی جنس بیورو، اسپیشل برانچ کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے نظر بندی کے احکامات جاری کیے۔اپیل کے مطابق 8 اگست 2023 کے نظر بندی کے احکامات جاری کرنے پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ توہین عدالت کی مد میں فرد جرم عائد کی گئی، جس کے بعد عدالت کے سامنے تمام ریکارڈ رکھا گیا، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عدالت کے روبرو اپنا تفصیلی بیان ریکارڈ کروایا۔اپیل کے مطابق انٹیلی جنس بیورو اور اسپیشل برانچ حکام نے بھی عدالت میں اپنی رپورٹ کے حوالے سے تائیدی بیان ریکارڈ کرایا۔اپیل میں موقف اپنایا گیا کہ کہ عدالت نے تمام بیانات اور ریکارڈ کو نظر انداز کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے دیا۔

اپیل میں سوالات اٹھائے گئے کہ کیا سنگل بینچ کا فیصلہ نظر بندی کے قانون سے مطابقت رکھتا ہے؟ کیا ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے روئیے اور برتا ئو سے توہین عدالت کا تاثر سامنے آیا؟ کیا یہ پورا مقدمہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے؟سوالات اٹھائے گئے کہ کیا ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے سنگل رکنی بینچ کے 2 جون 2023 کی خلاف ورزی کی ہے؟

کیا سنگل بینچ کے 2 جون 2023 کے فیصلے میں ڈپٹی کمشنر کو 3 ماہ بعد نظر بندی کے آرڈر جاری کرنے سے روکا تھا؟ کیا آئی بی اور اسپیشل برانچ کی رپورٹ کی بنیاد پر نظر بندی کے احکامات جاری کرنا بلا جواز تھا؟اپیل میں کہا گیا کہ اگر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے اقدام سے عدالت کی حکم عدولی ہوئی تو کیا اسلام آباد کی حدود سے باہر دیگر حکام نے نہیں کی؟ کیا سنگل رکنی بینچ نے توہین عدالت کا کیس ذاتی جذبات کی بنیاد پر چلایا اور جذباتی فیصلہ دیا؟

کیا سنگل بینچ نے میرٹ کے بجائے ذاتی احساسات اور جذبات کی بنیاد پر فیصلہ دیا؟اپیل میں استدعا کی گئی کہ عدالت سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو بری کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں