فواد چوہدری

اپوزیشن سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہی ہے، فواد چوہدری

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن والے سپریم کورٹ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں،عمران خان نے احتجاج کی کال دی تو آپ کا گھروں میں رہنا مشکل ہو جائے گا، ن لیگ اور پی پی کس منہ سے آئین کا نام لے رہی ہے ان کو شرم آ نی چاہیے، کیا لوگوں کو خریدنا اور ہارس ٹریڈنگ آئین کا حصہ ہے، اسپیکر کی رولنگ کو آئین سے بغاوت کہنے والے یہ ہوتے کون ہیں، اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی نہیں کہا جاسکتا، آرٹیکل 6 سے پہلے آرٹیکل 5 ہے جس میں وفاداری کی بات ہے، ان جماعتوں نے آئین کی دھجیاں اڑائیں،شہبازشریف نگران وزیراعظم کے نام پر یا مشاورت کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو نہ بنیں، 7 دنوں میں اگر نگران وزیراعظم کا نام نہیں دیا جاتا تو پھر 3 ناموں میں سب سے اوپر جس کا نام ہوگا وہ وزیراعظم بن جائے گا۔شہبازگل کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ گزشتہ روز اپوزیشن رہنماو¿ں کا کافی لمبا بیان سنا،ان کی پریس کانفرنس میں 10بندے ہوتے ہیں ۔

اور تمام میڈیا چینلز پر ان کے بندوں کی ایک ہی بات ہوتی ہے یہ چوں چوں کا مربع ہے ، مجھے ان کے بیان پر بہت سے اختلافات ہیں ،اپوزیشن نے اس میں سپریم کورٹ کو شامل کرنے کی کوشش کی ہے اور کہہ رہے کہ بنچ ان کی مرضی کا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔ انہوں نے کہا کہ میں کل سے دیکھ رہا ہوں کہ ان سب کے اکاو¿ٹنس میں سپریم کورٹ کے بنچ کے اوپر تحریکی حملے ہورہے ہیں ، ایسے ملک نہیں چلتا ، اپوزیشن نے کہا کہ ہم احتجاج کی کال دیں گے ،اگر عمران خان نے آپ کے خلاف کال دی تو آپ کیلئے اپنے گھروں میں رہنا مشکل ہوجائے گا اور بھاگنے کا راستہ نہیںملے گا ۔ سپریم کورٹ کے حکم مطابق پاکستان کے آئین وقانون کے دائرہ کار میں رہنا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا جائے ۔ فواد چوہد ری نے کہاکہ اپوزیشن کس منہ سے آئین کی بات کرتی ہے ، ن لیگ اور پیپلزپارٹی والوں کو آئین وقانون کے نام لیتے ہوئے شرم آنی چاہیئے ۔

انہوں نے آئین کی کرسیاں بکھیر یں ،لوگوں کو خریدا اور کروڑوں روپے دیکر کیا آرٹیکل 63اے آئین کا حصہ نہیں آپ نے آئین کی کیسی خلاف ورزی کی ۔ کیا ہارس ٹریڈنگ آئین کا حصہ ہے ،سپیکر کی رولنگ کانسٹیٹوشن ہے ،آپ کی جانب سے اسے بغاوت کا نام دیا گیا ،یہ کہنے والے آپ ہوتے کون ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام الیکشن کیلئے تیار ہیں ،کوئی بھی ایسی جماعت الیکشن سے فرار اختیار نہیں کرتی جیسے اپوزیشن کررہی ہے ،دنیامیں جہاں کہیں بھی بحران آتا ہے اس کا حل عوام نکالتی ہے ،اپوزیشن الیکشن اور عوام سے کیوں بھاگ رہی ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی سپریم کورٹ پر اثرا نداز ہونے کی کوشش کی گئی تو ہم اس کا جواب دینگے ،آ پ کی غداری کی بات کی اس پر آپ کو بتا دوں کہ ہم نے خط کی مکمل تفیصل سے عوام کو آگاہ نہیں کیا ۔

آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے آپ کو موقع فراہم نہیں کیا ، آپ کے کہنے پر ہم نے پارلیمنٹ کی سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ اجلاس کیا ، ہم نے شہباز شریف ،بلاول بھٹو اور دیگر رہنماو¿ں کو ثبوت دیکھنے کی دعوت دی ، آپ نہیں آئے، اس کے بعد بیک ڈور بریفنگ پر آنے کا کہاگیا اس پر بھی نہ آئے اب بھی وقت ہے کہ ان معاملات میں پبلک گفتگو نہ کریں یہ آپ کے حق میں بہتر ہے ،ہم پاکستان میں غداریوں کی سند نہ بانٹنے آئے اور نہ بانٹنا چاہتے ہیں آپ لوگوں کی تمام حرکات قابل اعتراض ہے جتنا آپ کے حوالے کم بات ہوگی وہ آپ کے لئے بہتر ہوگا ۔ پورا پاکسان الیکشن کیلئے تیار ہے ۔ صدر مملکت نے کہا شہبازشریف اس پراسیس کا حصہ نہیں بنیںگے تو یہ ان کی مرضی ہے ، ہم نے دو نام بھجوا دیئے ۔ اگرو ہ نام نہیں دیتے تو ان میں کوئی ایک نام وزیراعظم کے لئے فائنل ہوجائے گا ۔ الیکشن سے راہ فرار ممکن نہیں جبکہ پورا پاکستان الیکشن کیلئے تیار کھڑا ہے ۔

90روز کے اندر الیکشن ہوتے ہیں ،شہباز گل نے کہا کہ آرٹیکل 6سے پہلے آرٹیکل 5ہے ، اس آڑیٹیل میں وفاداری کی بات شامل ہے ، جس وفاداری کو اپوزیشن نے پامال کرنے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ میں بڑھ چرھ کر آتے ہیں تو ہم بھی عدالت سے استدعا کرنی ہے ، پچھلے ایک سال میں آپ کے بیرونی ممالک کے ایمبسڈر سے ملاقات پر عدالت ایک کمیشن بنائے اور معلوم کرے کہ واشنگٹن دورے پر بلاول بھٹو کس کس سے ملاقات کی تھی ۔ ہم عدالت سے بلاول بھٹو کی واشنگٹن دورے پر ملاقات پر استدعا کریں گے ۔ شہباز گل نے سوال اٹھایا کہ کیا بلاول بھٹو کی واشنگٹن دورے میں اس عہدیدار سے ہوٹل میں ملاقات ہوئی تھی کہ نہیں ۔

اس کے علاوہ راجہ ریاض سے فیصل میں کوئی پاگل منہ والا ملتا تک نہیں ،یہاں تک کہ گھر وا لے ان سے نہیں ملتے دوسری طرف سالن مانگنے پر انہیں کوئی سالن نہیں دیتا راجہ ریاض امریکی سفارتکار سے ملکر کیا کرتے رہے کیا وہ کوئی منصوبہ بنارہے تھے کیا دو مہینوں میں نوازشریف اسرائیل لوٹوں سے ملاقات کرتے رہے جبکہ شہبازشریف نے بھی ایسی ملاقاتیں یا دیگر رہنماو¿ں نے بھی ایسی ملاقاتیں کی ہیں کہ نہیں ،یہ سب عدالت ان سے معلوم کرے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں