چیف جسٹس

اپنے لوگوں کو بولیں ایوان میں سخت باتیں نہ کریں ، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ

اسلام آ باد (عکس آن لائن) چیف جسٹس نے پنجاب اسمبلی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے کہا کہ اپنے لوگوں کو بولیں ایوان میں سخت باتیں نہ کریں ، ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن وہ ہستی اپنا کام کرتی ہے، ہم نے آپ کو خوش آمدید اور گڈ ٹو سی یو کہا، ہماری ہر چیز درست طریقے سے رپورٹ نہیں ہوتی ۔

سپریم کورٹ میں پنجاب اسمبلی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت(آج) جمعرات تک ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اپنے لوگوں کو بولیں ایوان میں سخت باتیں نہ کریں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق فیصلے پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ بھی بینچ کا حصہ ہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے آج بھی اپنے دلائل جاری رکھے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنے لوگوں کو بولیں ایوان میں سخت باتیں نہ کریں، ہم کچھ نہیں کرسکتے لیکن وہ ہستی اپنا کام کرتی ہے، ہم نے آپ کو خوش آمدید اور گڈ ٹو سی یو کہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری ہر چیز درست طریقے سے رپورٹ نہیں ہوتی، کہا گیا کہ عمران خان کو عدالت نے مرسیڈیز دی تھی، میں تو مرسیڈیز استعمال ہی نہیں کرتا، عمران خان کی مرسیڈیز کا بندوبست پولیس نے کیا تھا مگر اس بات کو پتہ نہیں کیا سے کیا بنا دیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کو ایک دن انتخابات کی ایڈوانس کیوں نہیں دی، صدر مملکت کو 218 تھری کا بتایا گیا نہ ہی 1970 کے انتخابات کا، الیکشن کمیشن نے صدر کو سیکیورٹی کا بتایا نہ ہی فنڈز کا، صدر کو وہ صورتحال نہیں بتائی جو اب عدالت کو بتا رہے ہیں۔ زمینی حالات کا ذکر کئے بغیر 218 تھری کے تحت مزید اختیارات مانگے جارہے ہیں۔ آئین اختیار دیتا ہے تو استعمال کرنے سے پہلے آنکھیں اور ذہن بھی کھلا رکھیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تلور کے شکار والے کیس میں بھی عدالت نے فیصلے پر نظر ثانی کی، 16 ہزار ملازمین کے کیس میں بھی نظرثانی خارج ہوئی، عدالت نے پھر بھی 184 تھری اور187 کا اختیار استعمال کیا، ججز کیس میں بھی عدالت نے اپنا فیصلہ خود تبدیل کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ججز کیس میں سوموٹو نظرثانی کی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا سیکیورٹی اور فنڈز ملیں تو انتخابات کرا دیں گے، اب ان تمام نکات کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ عدالت توقع کرتی ہے کہ متعلقہ قانونی حوالے بھی دئیے جائیں گے، عدالت 2 منٹ میں فیصلہ کرسکتی ہے کہ نظرثانی خارج کی جاتی ہے، آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے سواری مس کر دی مگر عدالت قانونی نکات پر سن کر ہی فیصلہ کرنا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ عدالت نے پنجاب انتخابات پر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست(آج) جمعرات تک ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں