وزیر اعظم

افغانستان میں امن خطے کے امن کیلئے ناگزیر ہے، وزیر اعظم

اسلام آباد(عکس آن لائن)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن خطے کے امن کیلئے ناگزیر ہے، افغانستان سے تین گروپ پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں جنہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے،پاکستان افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کرسکتا،

افغان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے ،کشمیر کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہے، خطے میں امن کے لیے بھارت سے بات ہوسکتی ہے ،پہلے بھارت کو کشمیر پر لیا گیا یک طرفہ اقدام واپس لینا ہوگا اس اقدام کے بغیر بھارت سے کوئی بات کرنا کشمیریوں سے غداری کے مترادف ہوگا ،فرانس پاکستان کیلئے بہت اہم ملک ہے، فرانس کے صدر سے دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہوں گا،ہم امن میں امریکا کے شرکت دار ہیں تنازعات میں نہیں، پاکستان کے عوام کے تحفظ کی ذمہ د اری یہاں کی قیادت کی ہے امریکا کی نہیں۔فرانسیسی جریدے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں امن خطے کے امن کیلئے ناگزیر ہے، افغانستان سے تین گروپس پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں جنہیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجودہ عارضی سیٹ اپ کے بعد سے وہاں کوئی سنگین واقعہ پیش نہیں آیا، افغان حکومت سے کہہ دیا کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو اگر طالبان کی سرزمین سے دہشت گردی ہوگی تو افغان عوام بھی متاثر ہوں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں چار کروڑ افراد رہتے ہیں، پاکستان افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کرسکتا، دنیا کو افغان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے کیوں دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہیں ورنہ افغانستان میں کوئی انسانی المیہ بھی پیدا ہوسکتا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ طالبان بھی ایسے اقدامات کریں کہ دنیا کر ان پر اعتماد بحال ہوجائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ افغانوں نے اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا، کابل کے سقوط کے بعد سے دو لاکھ سے زائد افغان پاکستان آچکے ہیں، ہم افغانستان کو تنہا تسلیم نہیں کر سکتے،پاکستان افغانستان کے اطراف تمام علاقائی ممالک کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔فرانس سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ فرانس پاکستان کے لیے بہت اہم ہے کیوں کہ پاکستان کی نصف برآمدات یورپ کو جاتی ہیں، میرا مقصد ملک کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے میں فرانس کے صدر سے دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہوں گا،

فی الحال دورے کا کوئی پروگرام طے نہیں ہے لیکن فرانس کا دورہ کرنا چاہوں گا۔انہوںنے کہاکہ ہم معیشت کو اسی صورت اوپر لے جاسکتے ہیں جب ہمارے دنیا سے اچھے تعلقات ہوں۔عمران خان نے کہا کہ بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا، کشمیر کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہے، خطے میں امن کے لیے بھارت سے بات ہوسکتی ہے تاہم اس کے لیے پہلے بھارت کو کشمیر پر لیا گیا یک طرفہ اقدام واپس لینا ہوگا اس اقدام کے بغیر بھارت سے کوئی بات کرنا کشمیریوں سے غداری کے مترادف ہوگا کیوں کہ دنیا تسلیم کرچکی ہے کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جسے بھارت اپنی ریاست قرار نہیں دے سکتا۔وزیر اعظم نے کہاکہ یں اپنے ہندوستانی دوستوں کے لیے پریشان ہوں، بھارت میں آر ایس ایس کے نظریے پر کام ہورہا ہے وہاں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے،

وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، میں نے امن کے لیے مودی کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر بدقسمتی سے مودی آر ایس ایس کے انتہا پسند نظریے کا حامی ہے۔وزیر اعظم نے کہاکہ سنکیانگ چین کا حصہ ہے یہ کوئی تنازعہ نہیں، جبکہ کشمیر کو دنیا نے تسلیم کیا کہ یہ عالمی تنازعہ ہے، کشمیر پر آج تک یو این قراردادوں کے مطابق استصواب رائے نہیں ہو سکا، کشمیر کے معاملے کا براہ راست تعلق پاکستان سے ہے۔عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے امریکا سے بہت اچھے تعلقات قائم ہیں، امریکا سے تعلقات پر تنقید دہشتگردی اور افغان صورتحال کی وجہ سے کی،میں نے ہمیشہ افغانستان میں امریکی مہم جوئی پر تنقید کی، امریکا کی افغانستان میں ناکامی پر پاکستان کو ذمہ د ار ٹہرایا گیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ امریکا ابتداء میں القاعدہ کا مقابلہ کرنے افغانستان آیا تھا، ہمارا مشترکہ مفاد افغانستان میں استحکام ہے، ہم امن میں امریکا کے شرکت دار ہیں تنازعات میں نہیں، پاکستان کے عوام کے تحفظ کی ذمہ د اری یہاں کی قیادت کی ہے امریکا کی نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں