اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بچوں پر تشدد روکنے کے بل پر وزارت قانون سے 12مارچ تک جواب طلب کر لیا

اسلام آباد(عکس آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ نے بچوں پر تشدد روکنے کے بل پر وزارت قانون سے 12مارچ تک جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے کہا بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست پر فیصلہ اگلی تاریخ پر کر دینگے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ سرعام پھانسی دینے سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، انسانی رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تفصیلات کے مطابق جمعرات کو معروف گلوکار اور سماجی کارکن شہزاد رائے کی بچوں کو جسمانی سزا پر پابندی کیلئے درخواست پر سماعت کی۔

درخواست گزار شہراذ رائے نے موقف اپنایا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ بچوں کو تشدد سے محفوظ رکھنے کیلئے حکومت کو اقدامات کی ہدایت کی جائے۔ جج نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ پاکستان پینل کوڈ کا آرٹیکل89 پڑھ کر سنائیں۔ درخواست گزار شہزاد رائے کے وکیل شہاب الدین اوستو نے آرٹیکل89پڑھ کر سنایا جس کے مطابق بچوں کے والدین یا ورثا اچھی نیت کے ساتھ تشدد کی اجازت دے سکتے ہیں۔شہزاد رائے نے موقف اپنایا کہ والدین یا بچوں کے ورثا کو بھی کیسے حق ہے کہ وہ تشدد کی اجازت دیں۔ پینل کوڈ کی سیکشن 89 کی دوبارہ تشریح ہونے کی ضرورت ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ اسلام بچوں پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا، ہمیں 97فیصد مسلمانوں کو شرمسار ہونا چاہیے کہ بچوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔

دوران سماعت وزارت داخلہ نے کہا بچوں پر تشدد کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شکایت تب ہوتی ہے جب کوئی بڑا نقصان ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا بچوں پر تشدد روکنے کے لیے قانون سازی کا کیا بنا ؟ یہ تو انسانی حقوق کا کیس ہے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا وزارت قانون نے کہا ہے کہ یہ آپ کا دائرہ اختیار نہیں، ہماری وزارت بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست کی مکمل حمایت کرتی ہے، وزیر اعظم نے بھی بچوں پر تشدد روکنے کی مکمل حمایت کی ہے ،وزارت داخلہ نے بچوں پر تشدد روکنے کا بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا تاہم اسلامی نظریاتی کونسل نے بل پر اعتراض کر دیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا اسلام تو انسان کی عظمت کی تعلیمات دیتا ہے تشدد کی نہیں۔وزیر انسانی حقوقی شیریں مزاری نے کہا کابینہ نے بل کو منظور کرلیا، وزرات قانون نے کہا کہ یہ بل وزارت انسانی حقوق نہیں بلکہ وزارت داخلہ کا اختیار ہے۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب بل کی کابینہ نے منظوری دے دی تھی پھر وزارت داخلہ کو تو بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی؟چیف جسٹس نے کہا افسر مقرر کیا جائے جو بتائے بل پارلیمنٹ کیوں نہیں بھیجا گیا ؟ قانون نہ بھی ہو تو بچوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاسکتا، جسمانی سزا دینے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا چاہئے۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ بچوں پر تشدد کا بل دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کرنے کی ہدایت دی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کابینہ بل کی منظوری دے چکی، بل قومی اسمبلی میں پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔عدالت نے سیکرٹری قانون کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پرعدالت میں پیش ہونے کے لئے نمائندہ مقرر کریں اور بتائیں کہ بل قومی اسمبلی میں کیوں نہیں پیش کیا جا رہا۔درخواست کی مذید سماعت 30مارچ تک ملتوی کر دی گئی ۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ وزارت تعلیم نے اسلام آباد میں جسمانی سزا پر پابندی لگا دی ہے، بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست کی حمایت کرتے ہیں۔ گلوکار شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ بچوں کو مارنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا جنسی ہراساں کرنا، بل کا قومی اسمبلی میں جانا بہت بڑی کامیابی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں