لاہور (عکس آن لائن) لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز، حمزہ شہباز سمیت دیگر کی کامیابی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے مقدمات متعلقہ فورم پر چیلنج کرنے کا حکم دے دیا،
دوران سماعت مریم نواز پر طنز کرنے پر آفتاب باجوہ اور اعظم نذیر تارڑ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، جس پر عدالت نے وکلا کی تلخ کلامی پر اظہار ناراضگی کیا۔لاہور ہائیکورٹ میں مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز، لیگی رہنما خواجہ آصف، حمزہ شہباز سمیت دیگر امیدواروں کی الیکشن میں کامیابی کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت کمرہ عدالت میں درخواست گزار پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شہزاد فاروق کے وکیل آفتاب باجوہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔آفتاب باجوہ نے کہا کہ ہم نے مہارانی مریم نواز کے خلاف الیکشن لڑا، اس لیے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،
جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے ان کو ٹوکا کہ آپ ایسے الفاظ استعمال کریں گے تو میں کیس نہیں سنوں گا۔اعظم نذیر تارڑ نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ادب سے بات کریں جس پر وکیل نے ان کو جواب دیا کہ آپ کون ہوتے ہیں مجھے بات کرنے سے روکنے والے،
میں نے مہارانی کہا نوکرانی نہیں کہا، آپ کو جب نوٹس نہیں ہوئے تو کیا لینے آئے ہیں۔عدالت نے وکلاء کی تلخ کلامی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ بھی وکیل ہے، آپ تحمل کا مظاہرہ کریں۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ میں کسی بار کونسل کے نمائندے کے خلاف یہاں بات نہیں سنوں گا۔
لاہور ہائیکورٹ نے آفتاب باجوہ کو درخواست پر دلائل دینے کی ہدایت کردی۔پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شہزاد فاروق کے وکیل آفتاب باجوہ نے کہا کہ ہمارے خلاف اس لیے مقدمہ درج کردیا گیا کہ مریم نواز کے خلاف الیکشن کیوں لڑا۔ایڈووکیٹ آفتاب باجوہ نے عدالت میں شہزاد فاروق پر درج مقدمات کی تفصیلات پیش کردیں جبکہ عدالت نے مقدمات متعلقہ فورم پر چیلنج کرنے کا حکم دے دیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پروسیجر کو فالو نہیں کرتے، قانون میں تمام چیزیں موجود ہیں، سلمان اکرم راجہ کے کیس میں آر او آفس میں 500 لوگ آمنے سامنے آگئے تھے۔جس پر سلمان اکرم راجہ کے وکیل نے کہا کہ یہ غلط بیانی مت کریں ایسا کچھ نہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ الیکشن کے بعد آر او آفس میں ایک ہنگامہ انگیز صورتحال ہوتی ہے، اسی وجہ سے الیکشن قوانین ترمیم کرکہ کچھ قوانین میں تبدیلی کی گئی، ہمیں الیکشن کمیشن کو کچھ عزت دینی کی ضرورت ہے، یہ درخواستیں ابھی قابل سماعت نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کے ممبران کو پارلیمان منتخب کرتی ہے، جو درخواست پہلے آئے گی وہ پہلے سنیں گی، سب دعوے کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس فارم 45موجود ہیں، 2، 3کے علاہ کسی بھی درخواست کے ساتھ مکمل فارم 45نہیں لگائے گئے، یہ بھی ممکن ہے کہ جو امیدوار جیتے ہیں انکے پاس فارم 45میں موجود اعداد و شمار کچھ اور ہوں، ہارنے والے امیدوارں کے فارم 45میں اعداد و شمار کچھ اور ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی یہ ہوتا رہا کہ ہارنے والے امیدوار فارم 45 کے نمبر تبدیل کردیتے تھے، ان تمام سوالوں کے جوابات الیکشن کمیشن میں ہی مل سکتے ہیں۔دوران سماعت لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقرنجفی نے کہا کہ درخواست دائر کرنے کا پہلا فورم الیکشن کمیشن ہے، الیکشن کمیشن کو امیداروں کی درخواستوں پر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی ہدایت کردیتے ہیں۔
جسٹس علی باقرنجفی نے استفسار کیا کہ کیا یہ درخواست قابل سماعت ہے کیونکہ ابھی الیکشن کا پروسیس مکمل ہوا ہے، کیا درخواست گزار پہلے آر او کے پاس درخواست دائر کرنے کے پابند نہیں، درخواست دائر کرنے کا پہلافورم الیکشن کمیشن ہے۔وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ براہ راست درخواستیں دائر کرنے کادائرہ اختیار نہیں ہے۔
ریحانہ ڈار کے وکیل نے کہا کہ ہم ریٹرننگ افسر کے پاس درخواست لے کر گئے، الیکشن پراسیس مکمل ہونے پر ہم نے متعلقہ فورم سے رجوع کیا۔لاہور ہائیکورٹ نے انتخابی نتائج کے خلاف درخواستوں پر کارروائی ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن بتائے کہ آپ کے پاس کتنی کمپلینٹس آئی ہیں۔
یاد رہے کہ درخواست گزاروں نے عام انتخابات میں فارم 47جاری کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا تھا درخواست میں مقف اپنایا گیا تھا کہ ریٹرنگ افسران نے قانون کے منافی فارم 47 جاری کیا۔