میرا جسم میری مرضی

میرا جسم میری مرضی

خضر یونس

میرا جسم میری مرضی۔۔۔۔گذشتہ سال خواتین کے عالمی دن سے ہی یہ نعرہ لبرل خواتین کی زبان پہ ہے اور جسے پاکستان کی اکثریت سے مسترد کر دیا اور دوسری طرف خواتین کی ایک بڑی تعداد نےبھی اس نعرے کی مذمت کی۔اس سال بھی خواتین کے عالمی دن سے پہلے خواتین کے مارچ کے حوالے سے مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں حتی کے مارچ کا معاملہ عدالت تک جا پہنچا اور عدالت نے مارچ کے حوالے سے تبہیہ کی کے کوئی قابل اعتراض مواد اور نعرے نہیں لگائے جاہیں گئے۔

جمہوری معاشروں کے اندر ہر مکتبہ فکر کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہوتی ہے تاہم اظہار رائے کی آڑ میں اپنی اخلاقی اقدار کی پامالی کسی صورت قابل قبول نہیں۔عورت مارچ میں جو قابل اعتراض مطالبات پیش کیے جاتے ہیں انہیں ہر زی شعور انسان رد کرتا نظر آتا ہے۔

عورت اور مرد گاڑی کے دو پہیے قرار دیے جاتے ہیں اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں دونوں فریق مل کے ہی زندگی کی گاڑی کو راوں دواں رکھ سکتے ہیں اگر عورت گھر داری اور بچے سنبھالتی ہے تو وہیں مرد بھی ان کی کفالت کی زمہ داری قبول کرتا ہے اگر عورت بحثیت ماں بیٹی اور بیوی اور بہو کے فرائض سرانجام دیتی ہے وہیں مرد باپ بھائی شوہر اور داماد کی صورت میں اپنے فرائض سے عہدہ براہ نظر آتا ہے۔اور یہ سوشل کنٹریکٹ کچھ لو اور دو کی بیناد پہ پروان چڑھتا نظر آتا ہے۔

کل رات سے میڈیا پہ خلیل الرحمن قمر صاحب اور معروف سماجی کارکن ماروی سرمد کے درمیان ایک پروگرام میں ہوئی جھڑپ سوشل میڈیا پہ زیر بحث ہے ۔یہاں یہ بات قابل زکر ہے کے عورت مارچ میں آٹھائے گئے پلے کارڈز کی زبان اور مطالبات پہ اعتراض کیا جاسکتا ہے تاہم جو زبان خلیل صاحب نے ماروی کے ساتھ استعمال کی اسے بھی قابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا پاکستانی معاشرے میں ہر سطح پہ خواتین کی عزت و احترام کیا جاتا ہے اور یہ بات بھی عیاں ہے کے ماروری سرمد اور ان جیسی دوسری خواتین کے مطالبات معاشرے کی اکثریتی خواتین کی ترجمانی نہیں کرتے ۔کونسا گھر ہوگا جہاں بیوی یا ماں کہتی ہوگی اپنا کھانا خود گرم کرو ۔۔۔۔
یا میرا جسم میری مرضی۔!

اسی طرح جو انداز بیاں خلیل صاحب نے اپنایا اسے بھی ہم قابل مذمت قرار دیتے ہیں ہمارا مذہب اور معاشرہ ہیمیں خواتین سے بدتمیزی سے منع کرتا ہے۔

مگر جہاں خواتین میں ماروری سرمد موجود ہیں وہیں مردوں میں خلیل صاحب مرد بھی نظر آتے ہیں۔جو اپنا نقطہ نظر اسی دبنگ اور جارحانہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ضرورت سے امر کی ہے کے مرد اور خواتین اپنی اپنی زمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے سے تعاون کی پالیسی پہ عمل کرتے ہوئے زندگی کی گاڑی کو اگے بڑھاہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں