سنکیانگ

جعلی خبروں نے چین کے سنکیانگ بارے غلط فہمیاں پیدا کیں، چینی سفارتکار

اسلام آباد (نمائندہ عکس ) جعلی اور پلانٹڈ خبروں اور رپورٹوں نے سنکیانگ کی ثقافتی خوبصورتی اور اس کی سماجی و اقتصادی ترقی بارے غلط فہمیاں پیدا کی ہیں۔ یہ بات چینی سفارت خانے میں تعینات ایک سینئرسفارتکاروانگ شینگ جی نے “سنکیانگ پر چین کی حکمت علمی” کے موضوع پر ہونے والے ایک مکالے میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی۔ مکالےکا اہتمام کامسیٹس یونیورسٹی کے چائنہ اسٹیڈی سینٹر نے کیا تھا۔ وانگ شینگ جی نے اپنے کلیدی خطاب میں سنکیانگ پر چین کی حکمت عملی کی تفصیل سے وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی جنگ سے کئی ممالک مشکلات کا شکار ہیں۔ اس میں سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والی جعلی خبروں کا بڑا عمل داخل ہے جس عوام میں خوف وہراس اور افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ جس سے فائدہ اٹھانے والے افراد نے فوجی مراکز بنالئے ہیں۔ انہوں نے چین میں پاکستانی سفیرمعین الحق، مشاہد حسین سید اور ظفر الدین محمود کے کچھ اقتباسات کا ذکربھی کیا جنہوں نے سنکیانگ کو خوبصورت اور امن کی زمین قرادیا جس کی ویغور آبادی میں 2010 سے 2018 کے درمیان 25 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے مسائل کے حل کے لئے کچھ تجاویز بھی دیں جس میں حکمت بارے رابطے مضبوط کرنے،لوگوں کے درمیان تعلقات اور تجارتی تعاون کو فروغ دینا شامل ہے۔

مکالمے کے آغازپرکومسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کیمپس ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر شمس القمر نے استقبالیہ خطاب کیا جس میں انہوں نے تمام افراد کو خوش آمدید کہا اور معاونت پر چینی سفارتخانے کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاک چین دوستی دونوں ممالک کی جڑوں میں موجود ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگار گروپ کیپٹن (ریٹائرڈ) سلطان ایم حالی نے سنکیانگ بارے بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی حالت 1974 میں بہت خراب تھی لیکن اب یہ نیویارک سے کہیں زیادہ خوبصورت اور خوشحال ہے۔ سنکیانگ کا جی ڈی پی 2020 میں 13.8 کھرب ہوچکا ہے یہاں تیزرفتار ریلوے اور 21 سے زائد ہوائی اڈے موجود ہے سنکیانگ میں اس وقت 20 ہزار مساجد موجود ہیں جہاں انتہا پسندی کو پیچھے چھوڑکر نوجوان مسلمانوں کو اسلامی تعلیم دی جا رہی ہے۔
ایکس چینی ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر محمد ناصر خان نے نے تیزرفتارمعاشی ترقی کو سنکیانگ اور چین کی کامیابی کا راز قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چینی حکومت نے سنکیانگ کی ترقی پر بہت توجہ دی اور معاشی خوشحالی لانے کے لئے متعدد اقدامات کئے۔ سنکیانگ میں ارومچی کے انسٹی ٹیوٹ آف سوشل کلچرل اینتھروپولوجی کے سوشل اینتھروپولوجی کے پروفیسر ڈاکٹر سوئی ین ہو نے بھی چین سے ویڈیو لنک سے اجلاس سے خطاب کیا۔
بعد ازاں دوسرا سیشن ہوا جو سنکیانگ پر چین کی حکمت عملی بارے تھا جس کے موڈیٹر کے فرائض چائنہ اسٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر طاہرممتاز اعوان نے انجام دیئے۔ ڈاکٹراعوان نے بحث کا آغاز کرتے اس کے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی
اجلاس کا آغاز یوریشین سنچری انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد کے خضرحیات سے ہوا جنہوں نے سنکیانگ پر عالمی دنیا کی جانب سے چین پر لگائے گئے الزامات کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے اسے رد کردیا۔

جامعہ قائد اعظم کے شعبہ دفاعی اسٹریٹجک اسٹڈیز کی چیئرپرسن ڈاکٹر شبانہ فیاض نے کہا کہ درسگاہیں عوام کو صحیح رخ دکھانے میں اہم کردار اد کرسکتی ہیں اور اس کے لئے محقیق اور قومی دھارے کے محقیق میں فرق کم کرنے پرزوردیا۔
انہوں نے سنکیانگ میں چین کے ترقیاتی منصوبوں کی مختصراً وضاحت کی جن میں غربت کا خاتمہ، ماہی گیری اور جہاز رانی کے حقوق اور لوگوں کو تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت مہیا کرنا شامل ہیں۔
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے محقق حمزہ رفعت حسین نے بیانیہ پر بات کی انہوں نے کہا کہ علیحدگی پسندی کے رجحانات اور مذہبی ظلم و ستم میں فرق کی ضرورت ہے۔ ان کی رائے میں معلومات کی تصدیق نہ ہونے کے فقدان چین کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کی بڑی وجوہات ہیں۔
ایشین انسٹی ٹیوٹ آف ایکو سویلائزیشن ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سی ای او شکیل احمد رامے نے چین کی پالیسی اور ان سے بہتر اندز سے نمٹنے کے لئے اس کے معاشی ماڈل کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا ۔
انہوں نے بتایا کہ چین کی 80 فیصد سے زیادہ تجارت سنکیانگ کے راستے ہوتی ہے تو وہ اس علاقے کے لوگوں اس طرح کا رویہ کیوں رکھیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں