اسلام آباد(عکس آن لائن)سپریم کورٹ نے جنرل قمرجاوید باجوہ کو کام جاری رکھنے کی مشروط اجازت دینے پر رضامندی ظاہرکردی جبکہ اٹارنی جنرل انور منصور خان اورآرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم سے 4 نکات پر مشتمل بیان حلفی طلب کرلیا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم 3 ماہ میں متعلقہ قانون سازی کا بیان حلفی دیں گے،
آرمی چیف کے نوٹی فکیشن میں ان کی مدت ملازمت درج نہیں ہوگی، سمری میں سے 3 سال کی مدت بھی نکال دیں گے، تنخواہ اور مراعات سے متعلق چیزیں سمری سے نکال دیں، یہ کہ 6 ماہ میں قانون سازی کرلیں گے، ہم چاہتے ہیں یہ تمام رکارڈ کا حصہ ہو اور قانون درست ہونا چاہیے۔
جمعرات کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل پر مشمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی جب کہ اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان اور آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم نے عدالت میں دلائل دیے۔سماعت کے آغاز پر عدالت نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن طلب کرلیا۔چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے دستاویزات بھی پیش کریں، وہ جب ریٹائر ہوئے تو اس نوٹی فیکیشن کے کیا الفاظ تھے وہ بھی پیش کریں۔عدالت نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں جنرل (ر)اشفاق پرویز کیانی کو ریٹائرمنٹ کے بعد کتنی پینشن ملی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیےکہ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی۔اس کے بعد عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کردیا جس کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔سماعت کے دوبارہ آغاز پر اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کر دی گئی ہے، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نئی تعیناتی 243 (1) بی کے تحت کی گئی ہے، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا، اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے؟ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کردیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں،
عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نا کہہ سکیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی، تعیناتی اورتوسیع سے متعلق آرمی ریگولیشنزکی کتاب کو چھپا کرکیوں رکھا گیا، اس کتاب پرلکھا ہے کوئی غیرمتعلقہ شخص پڑھ نہیں سکتا، کیوں آپ نے اس کتاب کو سینے سے لگا کر رکھا ہوا تھا، بھارت اور دیگرممالک میں آرمی چیف کی تعیناتی اورمدت واضح ہے، اب عدالت میں معاملہ پہلی بار آگیا ہے تو واضح ہونا چاہیے۔دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔اٹارنی جنرل نے اس پر موقف اپنایا کہ اگرمدت مقرر نا کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا، مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کل آپ کہہ رہے تھے جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں، پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کرسکے۔اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس مظہر میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی طے کرلیا جائے آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آئین وقانون کو کیا دیکھا ہمارے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوگیا، کہہ دیا گیا کہ یہ تینوں جج سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں، الزام لگایا گیا کہ ہم بھارت کی ایما پر کام کررہے ہیں،
کہا گیا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہے، ہمیں پوچھنا پڑا کہ یہ ففتھ جنریشن وار ہوتی کیا ہے، کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھارتی چینلز پر چلایا جارہا ہے، آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔جسٹس کھوسہ کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا لیکن سوشل میڈیا کسی کے کنٹرول میں نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، آپ 3 سال کے لیے توسیع دے رہے ہیں، کل کوئی قابل جنرل آئے گا تو پھر کیا اسے 30 سال کے لیے توسیع دیں گے؟جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، آپ رولز میں ترمیم کرتے رہے ہیں، پھر ہم نے ایڈوائزری کردار لکھ دیا۔عدالت کی جانب سے نوٹیفکیشن طلب کرنے پر جنرل ریٹائرڈ کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع اور جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات بھی عدالت میں پیش کی گئیں۔نوٹیفکیشن پڑھ کر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس نوٹی فکیشن میں بھی نہیں لکھا کہ توسیع کس نے دی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹی فکیشن سے پہلے سمری تیارکی جاتی ہے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ قانون بنانے میں کتنا وقت لیں گے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون بنانے کےلیے ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا عدالت نے توسیع کردی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی، آپ نے کہا ہے کہ قانونی سازی کیلئے 3 ماہ چاہئیں تو ہم 3 ماہ کیلئے اس کی توسیع کردیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن جن لوگوں نے ملک کی خدمت کی وہ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن آئین اور قانون سب سے مقدم ہے، حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہوجائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں۔معزز چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت کا کندھا استعمال نا کریں، آئندہ کے لیے بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہوگا، آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں۔آرمی چیف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ 243 میں بہتری کرلیں گے، حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ آرٹیکل 243 میں تنخواہ، الاونس اور دیگرچیزیں شامل کریں گے جب کہ اس کا بیان حلفی بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔اس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ سمری سے 3 سال کی مدت ملازمت کے الفاظ حذف کریں گے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم سے 4 نکات پر مشتمل بیان حلفی طلب کرلیا اور جنرل قمرجاوید باجوہ کو کام جاری رکھنے کی مشروط اجازت دینے پر رضامندی ظاہرکردی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم 3 ماہ میں متعلقہ قانون سازی کا بیان حلفی دیں گے، آرمی چیف کے نوٹی فکیشن میں ان کی مدت ملازمت درج نہیں ہوگی، سمری میں سے 3 سال کی مدت بھی نکال دیں گے، تنخواہ اور مراعات سے متعلق چیزیں سمری سے نکال دیں، یہ کہ 6 ماہ میں قانون سازی کرلیں گے، ہم چاہتے ہیں یہ تمام رکارڈ کا حصہ ہو اور قانون درست ہونا چاہیے۔بعد ازاں عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا اور چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دوپہر کو اس حوالے سے شارٹ آرڈر جاری کریں گے۔
گزشتہ روز عدالت نے حکومت کو حل نکالنے کے لیےجمعرات تک کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اٹارنی جنرل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر آج مطمئن نہ کر سکے تو عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کر دے گی ۔گزشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل انور منصور خان کے دلائل پر چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس منصور علی شاہ نے اہم قانونی نکات اٹھائے۔چیف جسٹس پاکستان نے معاملے غفلت پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم نے نئی تقرری کی سفارش کی اور صدر نے توسیع دی،کیا لکھا ہےاور کیا بھیج رہے ہیں یہ بھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی، سمری، ایڈوائس، نوٹی فکیشن جس طرح بنائے لگتا ہے وزارت قانون نے بہت محنت سے یہ معاملہ خراب کیا۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے ہیں، آپ نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا ہے، ہم آپ کو کل تک کا وقت دے رہے ہیں حل نکال لیں، بصورت دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے، آئینی ذمہ داری پوری کریں گے۔