بیجنگ (عکس آن لائن) 13 مئی کو تائیوان کی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) کی انتظامیہ کی اس سال کی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں شرکت کی کوشش ایک بار پھر ناکام ہوگئی۔ تائیوان کی ڈی پی پی کی 2016 کے بعد سے یہ مسلسل آٹھویں شکست ہے۔ اس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ ایک چین کا اصول بین الاقوامی برادری کا عالمگیر اتفاق رائے ہے، اور تائیوان کی علیحدگی کا نام نہاد “بلواسطہ راستہ” ایک بند گلی میں ختم ہوتا ہے۔
تائیوان کی ڈی پی پی کی انتظامیہ طویل عرصے سے عالمی ادارہ صحت میں شامل ہونا چاہتی رہی ہے، لیکن یہ تائیوان کے عوام کی صحت اور فلاح و بہبود کے لیے نہیں ہے۔ کووڈ ۱۹ کے پھیلاؤ کے دوران ، جب تائیوان وبا کا سب سے زیادہ متاثر علاقہ بن گیا ، اور امریکہ نے تائیوان کو اس بنیاد پر ویکسین فراہم کرنے سے انکار کردیا کہ “تائیوان کے لوگوں کی تصدیق شدہ شرح نسبتاً کم ہے”، چین کی مرکزی حکومت نے تائیوان کے ہم وطنوں کی صحت اور فلاح و بہبود کے لئےاس وبا کے خلاف جنگ میں فعال طور پر مدد کا ہاتھ بڑھایا ، لیکن ڈی پی پی حکام نے اسے مسترد کردیا۔ تائیوان کے لوگوں کی مخلصانہ مدد کون کرتا ہے اس کا جواب خود بخود واضح ہے۔
عالمی صحت کے معاملات میں تائیوان کی شرکت کے حوالے سے چین کی مرکزی حکومت ہمیشہ خلوص سے بھرپور رہی ہے اورمناسب انتظامات کر تی رہی ہے۔ 2009 سے 2016 تک جب تائیوان انتظامیہ نے ایک چین کے اصول سےمطابقت رکھنے والے “1992 اتفاق رائے” پر عمل کیا تو تائیوان کے علاقے نے “چائنیز تھاپے” کے نام سے اور مبصر کے طور پر ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں حصہ لیا۔ اگرچہ ڈی پی پی انتظامیہ 2016 سے “تائیوان کی علیحدگی” کی پالیسی پر بضد رہی لیکن چین کی مرکزی حکومت نے گزشتہ سال ڈبلیو ایچ او کی تکنیکی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لئے تائیوان سے 21 بیچوں کی 24درخواستوں کی منظوری بھی دے دی ۔
تائیوان انتظامیہ کا یہ دعویٰ کہ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں شرکت نہ کرنے سے نام نہاد “بین الاقوامی انسداد وبائی نظام میں خلا پیدا ہوگا” بالکل مبالغہ آرا اور بےبنیاد ہے۔ تائیوان کے علاقے میں انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کے لئے ایک رابطہ پوائنٹ ہے ، جو ڈبلیو ایچ او کی طرف سے بروقت جاری کردہ صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتا ہے ، اور ڈبلیو ایچ او کو بروقت مطلع بھی کرسکتا ہے ، اور تائیوان کے عوام کے صحت کے حق کی مکمل ضمانت ہے. تائیوان انتظامیہ کا عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں شرکت پر اصرار جن میں صرف خود مختار ممالک حصہ لے سکتے ہیں، درحقیقت بین الاقوامی برادری میں اسی طرح کی “خودمختار ریاست کی شناخت” حاصل کرنے اور “تائیوان کی علیحدگی” حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
کیا تائیوان ایک خود مختار ملک ہے؟ کبھی نہیں.
تائیوان قدیم زمانے ہی سے چین کا حصہ رہا ہے۔ دسمبر 1943 میں چین، امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے جاری قاہرہ اعلان میں واضح طور پر مطالبہ کیا گیا تھا کہ جاپان ان علاقوں کو چین کو واپس کرے جو اس نے چین سے چھینے تھے، بشمول تائیوان اور پینگھو جزائر۔ 1945 کے پوٹسڈیم اعلامیے نے اس بات کا اعادہ کیا کہ قاہرہ اعلان کی شرائط پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ قاہرہ اعلان اور پوٹسڈیم اعلامیہ کے اصل انگریزی ورژن آج تک بھی واشنگٹن ڈی سی میں 700 پنسلوانیا ایونیو میں واقع امریکہ کے نیشنل آرکائیوز میں محفوظ ہیں۔
1971ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے چھبیسویں اجلاس میں قرارداد 2758 کو بھاری اکثریت سے منظور کیا جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ “عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کے نمائندوں کو اقوام متحدہ میں چین کے واحد جائز نمائندے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور چیانگ کائی شیک کے نمائندوں کو فوری طور پر ان نشستوں سے نکال دیا جائے جن پر وہ غیر قانونی طور پر اقوام متحدہ اور اس کے تمام اداروں میں قابض ہیں”۔ قرارداد میں اقوام متحدہ میں تائیوان سمیت چین کی نمائندگی کے تمام معاملے کو سیاسی، قانونی اور طریقہ کار کے لحاظ سے مکمل طور پر حل کیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ دنیا میں صرف ایک ہی چین ہے اور تائیوان چین کا حصہ ہے، کوئی ملک نہیں۔ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ چین کی اقوام متحدہ میں صرف ایک نشست ہے، اور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت واحد جائز نمائندہ ہے، اور “دو چین” یا “ایک چین، ایک تائیوان” جیسا کوئی تصور نہیں ہے. اگر چین کی نمائندگی میں تائیوان شامل نہیں ہے، تو “چیانگ کائی شیک کے نمائندوں” کو کیوں نکالا گیا ؟ 50 سال سے زائد عرصے سے اقوام متحدہ اور بہت سے دیگر بین الاقوامی اداروں میں چین کی فیس کے تناسب میں تائیوان کا جی ڈی پی کیوں شامل ہے؟
جنرل اسمبلی کی قرارداد 2758 کی منظوری کے بعد سے اقوام متحدہ، اس کے خصوصی ادارے اور دیگر بین الحکومتی بین الاقوامی تنظیمیں اس پر عمل پیرا ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے قانونی امور نے متعدد قانونی آراء جاری کی ہیں جن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ “تائیوان چین کا حصہ ہے” اور یہ کہ “تائیوان، چین کے ایک صوبے کی حیثیت سے، کوئی آزاد حیثیت نہیں رکھتا”۔ مئی 1972 میں جنرل اسمبلی کی قرارداد 2758 کے مطابق جنرل اسمبلی کے پچیسویں اجلاس میں قرارداد 25.1 کی منظوری سے بھی اس بات کی دوبارہ تصدیق ہوئی ۔ لہٰذا چین کی سرزمین کے ایک حصے کی حیثیت سے تائیوان کے علاقے کے پاس اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں شرکت کی کوئی بنیاد، جواز یا حق نہیں ہے جس میں صرف خودمختار ریاستیں حصہ لے سکتی ہیں۔
امریکہ سمیت چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والے تمام 183 ممالک نے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات کے قیام سے متعلق اعلامیے اور مشترکہ اعلامیے جیسی اپنی سیاسی دستاویزات میں واضح طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت پورے چین کی نمائندگی کرنے والی واحد قانونی حکومت ہے اور تائیوان چین کا حصہ ہے۔ اس سے پوری طرح ظاہر ہوتا ہے کہ ایک چین کا اصول بین الاقوامی برادری کا عالمگیر اتفاق رائے، عمومی بین الاقوامی مفاد اور وقت کا رجحان ہے۔
20 مئی کو تائیوان علاقے کے نئے رہنما کے حلف اٹھانے میں ابھی چند دن باقی ہیں۔ تائیوان میں جنگ کے بجائے امن، کساد کے بجائے ترقی، علیحدگی کے بجائے تبادلے اور محاذ آرائی کے بجائے تعاون رائے عامہ کے مرکزی دھارے ہیں۔ کیا عوام کی خواہش کے مطابق پرامن ترقی کا صحیح راستہ یا اس کے خلاف اشتعال انگیزی اور محاذ آرائی کا غلط راستہ اختیار کرنا ہے، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تائیوان علاقے کے نئے رہنما کو سنجیدگی سے دینا ہوگا۔
تائیوان میں ڈی پی پی انتظامیہ کو یہ حقیقت سمجھنا چاہیئے کہ “تائیوان کی علیحدگی” کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے “1992 کے اتفاق رائے” کی سیاسی بنیاد پر واپس آئے، اور آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کی پرامن ترقی اور مادر وطن کی وحدت کے پروموٹر بننے کی کوشش کرے بجائے اس کے کہ تاریخ کے رجحان کے خلاف رکاوٹ بنے۔