واشنگٹن(عکس آن لائن)امریکا کی طرف سے ایران پرعاید کی گئی اقتصادی پابندیوں کے بعد ادائی گی کی مشکلات کی وجہ سے تقریبا ایک ملین ٹن اناج سے لدے 20 سے زیادہ جہاز ایرانی بندرگاہوں کے باہر پھنس گئے ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کاروباری ذرائع نے بتایا کہ بونجی اور چین کی کوکو انٹرنیشنل جیسی کمپنیاں پابندیوں کے نتیجے میں لین دین میں مشکلات کا سامنا کرہی ہیں اور انہیں یومیہ 15000 ڈالر تک اضافی لاگت کا سامنا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سنہ 2015 کے عالمی معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد واشنگٹن کی طرف سے عاید پابندیوں خوراک، ادویات اور انسانی ضرورت کی بنیادی اشیا کو مستثنی قرار دیا گیا ہے۔امریکا کے ایران کے خلاف اقدامات کا مقصد تیل کی فروخت پر پابندی ہے۔ یہ پابندیاں صرف جہاز رانی اور مالی سرگرمیوں تک محدود نہیں بلکہ متعدد غیر ملکی بینکوں کو ایران کے ساتھ کام کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔مالیاتی ذرائع منجمد ہونے کے ساتھ اب بہت کم غیرملکی بنک ایسے ہیں جو ایران کے ساتھ لین دین کررہے ہیں۔
انہیں بھی لین دین میں غیرمعمولی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا ہے ،چھ مغربی اور ایرانی ذرائع نے بتایا کہ پابندیوں کے باعث ایک ماہ سے غلے سے لدے کئی جہاز امام خمینی اور بندرعباس بندرگاہوں سے باہر کھڑے ہیں۔ذرائع نے بتایاکہ بندرگاہوں سے باہر کھڑے جہازوں پر سویا بین اور مکئی سمیت اجناس کی دیگر کھیپ جو زیادہ تر جنوبی امریکا لائی گئی ہے رکی ہوئی ہے۔ایک یورپی ذریعہ نے کہا کہ انسانی ضرورت کی اشیا ایران لے جانے پرکوئی پابندی لیکن آپ کو عدم ادائیگی کی وجہ سے کئی مہینے انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ایک اور ذریعے نے بتایا کہ ڈیلروں کو خدشہ ہے کہ بقایا جات ملنے سے سے قبل ایران کو ان اشیا کی فروخت روک نہ دی جائے۔ایک ذریعے نے بتایا کہ غیر ملکی بنکوں اور ڈیلروں کی طرف سے ایران کے بائیکاٹ کا دائرہ وسیع ہورہاہے۔
کئی غیرملکی بنکوں کی طرف سے ایران کے ساتھ لین دین سے انکار کیا گیا ہے۔ستمبر میں ایران کے مرکزی بینک پر سعودی عرب میں تیل کی دو تنصیبات پرحملوں کے بعد امریکا نے تہران پر نئی پابندیاں عاید کی تھیں جن کے نتیجے میں ایران کو لین دین کے معاملات انجام دینے مزید دشواریوں میں اضافہ ہوا تھا۔ امریکا اور تین یورپی ممالک نے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پرایران کے ملوث ہونے کا الزام عاید کیا تھا۔ایرانی بندرگاہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ تازہ ترین پابندیوں سے بینکوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ جن چھوٹے چھوٹے بینکوں کے ساتھ ہم کام کر رہے تھے ان میں سے کچھ نے ہمیں بتایا کہ وہ اب ہمارے ساتھ کام نہیں کریں گے۔