لاہور(عکس آن لائن)وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب عرفان قادر نے کہا کہ عدلیہ میں ہم خیال ججز کے فیصلوں کے تسلسل سے ریاستی اداروں میں مداخلت کا پیٹرن نظر آرہا ہے کہ جیسے وہ کسی مخصوص سیاسی دھڑے کی طرف کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں،عدالت میں کچھ لوگوں کا مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ ہم ریاست، آئین اور سب سے اوپر ہیں، خدارا یہ ججز صاحبان اپنی سوچ کو آئین و قانون کی تعظیم اور ریاست سے وفاداری میں ڈھالیں ،اگر وہ چاہ رہے ہیں کہ پارلیمان ان سے پوچھے کہ کیا قانون بنانا ہے تو کل کو پارلیمان اور حکومت بھی کہہ سکتی ہے کہ آپ جو اہم کیسوںمیں فیصلے دیتے ہیں ان میں ہم سے بھی پوچھ لیا کریں،ہم سپریم کورٹ کے ساتھ ہیں اور صرف اس مخصوص ہم خیال گروہ کے ساتھ نہیں جو خود عدلیہ کے ساتھ نہیں ہے،ریاست سب سے اوپر ہے پھر آئین اور باقی ادارے آتے ہیں، اب یہ سوال کیا جاتا ہے حکومت کیا کر رہی ہے ،
سپریم کورٹ حکومت اور پارلیمان سے نہیں پوچھ سکتی اور اسی طرح پارلیمان اور حکومت یہ سوال نہیں کرسکتے کہ سپریم کورٹ کیا کررہی ہے البتہ اگر عدالت میں چند مخصوص جج صاحبان آئین و قانون کی حدود کو پامال کرتے نظر آئیں تو ان کا ذکر کیا جاسکتا ہے،یہ زعم ہونا کہ آئین ہمیں دستک دے رہا ہے اور ہم آئین سے بڑے ہیں یہ سوچ آئین کے منافی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل اس وقت مفلوج ہے ۔ گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عرفان قادر نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے کہ سب نے ریاست کا وفادار رہنا ہے اور اس کے بعد ادارے ہیں جنہوں نے اپنی حدود و قیود میں کام کرنا ہے ،وفاقی حکومت ،پارلیمان ، صوبائی حکومت، صوبائی اسمبلیاں ہیں اور وہ تمام ادارے جو کسی طرح لوکل ٹیکسز یا اتھارٹیز ایکسر سائز کرتے ہیں وہ ریاست میں آتے ہیں،
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ چند مخصوص لوگ جن کے بارے میں ہم خیال کا لفظ استعمال ہو رہا ہے ان کے فیصلوں کے تسلسل میں ریاستی اداروں میں مداخلت ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جیسے وہ کسی مخصوص سیاسی دھڑے کی طرف نرم گوشہ رکھتے ہیں اور یہ سیاسی دھڑا ریاست کے اداروں بشمول افواج پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا اور اسی وجہ سے اس سیاسی دھڑے کے اپنے لوگ اور فقائے کار اسے چھوڑ کر کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں ۔لیکن ابھی بھی چند ہم خیال جج صاحبان اس دھڑے کی طرف سے نرم گوشہ رکھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہم مقدمات کی سماعت کے دوران یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے ،یہ سوال بھی کیا جاتا ہے قانون سازی میں ہم سے مشاورت کیوں نہیں کر لی جاتی ، ریاست کا اہم جزو حکومت ہے اور وہ پوری ریاست کو سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں جوابدہ ہے جبکہ آئین میں لکھا ہوا ہے کہ سب کی وفاداری ریاست کے ساتھ ہے ۔
اگر کوئی مقدمہ لگتا ہے جس میں کوئی ریاستی اہلکار فریق ہے یا اس کا کنڈکٹ سامنے آتا ہے تو قانون کے مطابق عدالت کو حق ہے کہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ،لیکن یہ کہ حکومت کیا کر رہی ہے آپ ایسے نہیں کہہ سکتے یہ آئین کے آرٹیکل7کی خلاف ورزی ہے ،اسی طرح پارلیمان اور حکومت یہ نہیں کہہ سکتے کہ سپریم کورٹ کیا کر رہی ہے ہاں البتہ اگر سپریم کورٹ میں چند مخصوص جج صاحبان جن کے بارے میں نظر آئے کہ وہ آئینی و قانونی حدود وقیود پامال کر رہے ہیں ان کے اندر نہیں رہ رہے تو ان کا ذکر کیا جا سکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ آئین و قانون سے بڑا کوئی نہیں ہے ۔ اس طرح کا زعم ہونا یا خیال ہونا کہ آئین ہمیں دستک دے رہا ہے اور ہم آئین سے بڑے ہیں یہ سوچ غیر آئینی سوچ ہے ،یہ آئین کے منافی سوچ ہے ،ہر شہری کا حق اورفرض ہے کہ وہ یہ باور کرائے یہ سوچ آئین کے مطابق نہیں ۔ ہم سب آئین کے تابع ہیں اور یہ نہیں کہ آئین دستک دے گا تو ہم آئین سے بڑے ہیں۔
دوسری منطق یہ دی جارہی ہے کہ دو تین کیسز چل رہے ہیں،اٹارنی جنرل کو کہا گیا کہ جو قانون سازی ہوتی ہے ہم سے پہلے مشاورت کیوں نہیں کر لی جاتی ، قانون سازی پارلیمان کا استحقاق ہے اس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ،عدلیہ کا کام ہے جب کوئی قانون بن جاتا ہے تو وہ اس کے آگے سر تسلیم خم ہو جائے یا اگر وہ قانون کسی طرح آئین کے کسی شق کے منافی ہے اس کی نشاندہی کرے کہ یہ آئین کی خلا ف ورزی ہے اور اس کا اختیار ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ دونوں کے پاس ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے معاملات ہائیکورٹ میں بھی جائیں یہاں سارے کے سارے معاملات سپریم کورٹ میں جارہے ہیں۔سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہے کہ کوئی حد طے کریں کہ کون اس کو دیکھ سکتا ہے ، جس طرح کے بنچز بنے ہیں اس پر سپریم کورٹ کے اندر سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ،پارلیمان ریاست ہے ،عدالت کا آئین میں اس طرح سے ذکر نہیں ہے بلکہ عدالت تابع ہے لیکن عدالت میں کچھ لوگوں کا مائنڈ سیٹ ایسا ہے ہم ریاست اور آئین اور سب سے اوپر ہیں ۔ سپرلیجسلیشن کی سوچ غیر آئینی اور آمرانہ سوچ ہے ۔
انہوںنے کہا کہ کچھ جج صاحبان جو اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں وہ اپنی سوچ آئین وقانون کی تعظیم میں ڈھالیں ریاست کی وفاداری میں ڈھالیں نہ کہ اس سے بڑے بنیں۔ اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پارلیمان نے کیا قانون بنانا ہے تو کل حکومت اورپارلیما بھی کہہ سکتے ہیں جو آپ اہم کیسز میں فیصلے دیتے ہیں پہلے ہم سے پوچھ لیا کریں اور مشاورت کر لیا کریں تاکہ ہمیں چیلنج نہ کرنا پڑے ، کیا کبھی ریاست نے ایسی سوچ رکھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم عدلیہ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ،ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں ہم صرف ان مخصوص ہم خیال گروپ کے ساتھ نہیں ہیںجو خود عدلیہ کے ساتھ نہیں ہے خود عدالتوں کے فیصلے نہیں مانتے۔ وہ خود ہی بنچ بنانے شروع کر دئیے ہیں، مرضی کا چنائو کرتے ہیں ،کیسز اپنی مرضی کے بنچز میں لگانے کی کوشش شروع کر دئیے ، وکلاء بھی اپنی مرضی کے چننا شروع کر دئیے ۔
عرفان قادر نے کہا کہ موجودہ اٹارنی جنرل بہت صبر سے کام کر رہے ہیں ، وہ کوئی انا کا مسئلہ نہیں بنا رہے ،تہذیب سے پیش آرہے ہیں،اٹارنی جنرل عزت دے رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریاست بڑی کمزور ہے ، آئین میں ریاست کمزور نہیں ہے ، آئین میں سپریم کورٹ کو کہاں اختیار دیا گیا ہے کہ آپ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں ،صدر پاکستان یا گورنرتاریخ دیں گے ،آپ نے فیصلہ کیا کہ پنجاب کے انتخابات کے لئے صدر پاکستان تاریخ دیں گے اور خیبر پختوانخواہ کی اسمبلی کے لئے گورنر کو کہا گیا حالانکہ یہ دونوں فیصلے صریحاً غلط تھے ،صدر کا کوئی کردار نہیں ،صدر قومی اسمبلی تحلیل کریں گے اور کردار ہوگا۔
سپریم کورٹ نے 14مئی کو جو انتخابات کی تاریخ دی ہے اس کے مطابق پھر بھی نوے روز نہیں بنتے ۔علیحدہ علیحدہ الیکشن کرانے کی کوشس سے ایسا لگتا ہے کہ اسے دھڑے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی جلد الیکشن کرانے کا بیانیہ ہے اور اس کو مضبوط کیا جائے ،اس دھڑے کے کنڈکٹ کے بارے میں ایک جج صاحب نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کے معاملے پر لکھا ، جواس دھڑے کے ہم مسلک ججز نظر آرہے ہیں پھر وہ بھی مجبور ہو گئے اور انہوں نے لکھا یہ غیر آئینی اقدام ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ دھڑا اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا تو پھر استعفے دے دیتے ہیں،
لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب نے فیصلہ کر دیا اور ان کے بارے میں میں بھی آڈیو ٹیپس ہیں ،یہ ٹیپس ٹھیک ہیں یا نہیں ان کا ذکر آگیا تھا،ٹیپس والے ایک جج صاحب سپریم کورٹ اور دوسرے ہائیکورٹ میں ہیں ۔لاہور ہائیکورٹ کے جج صاحب نے استعفوں کے معاملے میں سپیکر قومی اسمبلی کو حکم رک دیا حالانکہ سپیکر قومی اسمبلی عدلیہ کے تابع نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ججز کو چاہیے کہ آئین و قانون کے مطابق نیوٹرل فیصلے کریں بلکہ غیر جانبدار فیصلے نظر بھی آئیں ۔ انہوںنے کہا کہ یہ بات سامنے آئی کہ سینئر ججز کو نظر اندز کیا جارا ہے اور یہ آوازیں عدلیہ کے اندر سے اٹھی ہیں ،ون مین شو کی باتیں کی گئیں ۔
اس حوالے سے دو اہم قوانین آئے ، پارلیمان نے نفاذ کیا کہ سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں مرضی کے بنچز بنائے جارہے ہیں،حکومت سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہوئی کہ تین سینئر ترین ججز مل کر ججز کریں بنچز کیسے بنیں گے کس طرح سے 183تھری کو دیکھا جائے ، اس میں اپیل کا حق بھی دیدیا گیا ۔یہ ایک صفحے کا قانون ہے اور ابھی یہ بنا نہیں تھا اس کو معطل کر دیا گیا ،ابھی قانون بنے بھی نہیں اور پارلیمان کو قانون سازی سے روک دیا جائے ، سپریم کورٹ تابع ہے جو پارلیمان بناتا ہے ، پارلیمان نے بڑا دل دکھایا ، دوسری سائیڈ کے ججز بھی خاموش رہے ۔
عرفان قادر نے کہا کہ جو مخصوص ہم خیال ججز ہیں وہ اپنی اناء کو ایک طرف رکھیں آئین کی تعظیم کریں دل بڑا کریں باوجود انہوںنے خلاف ورزی کی ہم ان کی عزت کرتے ہیں ۔ میں اس پریس کانفرنس کی وساطت سے توقع کرتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے چند ججز جنہوں نے انا ء کا مسئلہ بنایا ہوا ہے وہ اسے چھوڑیں اور اس ملک کو لے کر آگے چلیں ، معیشت تنازعات کی وجہ سے مشکل میں ہے باقی ترقی میں بھی رکاوٹ آئی ہوئی ہے سست روی کا شکار ہے ،
ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اس کی تنصیبات پر ہلڑ بازی کی گئی ، حکومت ،سپریم کورٹ اناء کو پس پشت ڈالیں اور مل کر کوشاں رہیں کہ ہم نے اس قوم کو عوام کو کچھ دینا ہے ۔انہوں نے کہاکہ آڈیو لیکس میں بھی یہی پیٹرن نظر آرہا ہے کہ مخصوص سیا سی دھڑے کے لئے معیار ہ ے اور باقی کے لئے اور ہے ،اس کو روکنے کے لئے سپریم کورٹ کو یہ کام سونپا گیا ہے ، اگر آپ برادر ججز پر اعتبار نہیں کریں گے تو لوگ کل کیوں سپریم کورٹ کے ججز پر اعتبار کریں گے ،یہ خطرناک ٹرینڈ ہے ، اس پر آپ نے حکم امتناعی دیدیا کہ یہ عدلیہ میں مدخلت ہے ،اگر باہر سے لوگوں کو بٹھا دیا جاتا تو وہ عدلیہ کے خلاف کوئی فیصلہ کرتے تو یہ مداخلت ہوتی ، جب کسی ادارے کے دو فیصلے سامنے آئیں گے تو اسے لارجر بنچ حل کرے ،
وزیر اعظم شہباز شریف عدلیہ کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں ، جہاں تک عدلیہ کا احتساب کا سوال ہے یہ کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل میں ہو سکتی ہے ، فی الحال سپریم جوڈیشل کونسل بھی مفلوج ہوئی ہے جب معاملہ چلے گا تو پارلیمان کو اس طرف پیشرفت کرنا پڑے گی ، سپریم جوڈیشل کونسل میں بہت سارے کیسز زیر التواء ہیں ،خیال کیا جارہا ہے سب کے خلاف کیسز آگئے ہیں ساری بر الذمہ ہو جائیں گے ایسا نہیں ہے ،جس ترتیب میں آئے ہیں یہ اسی تربیت سے سنے جائیں گے، جن ججز کے خلاف کیسز ہیں اگر وہ سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہیں تو وہ اس میں نہیں بیٹھ سکتے ،جو پہلے کیسز آئے وہ پہلے سنے جائیں گے جو بعد میں آئے ہیں وہ اسی ترتیب سے سنے جائیں گے ۔
حالات کی وجہ سے سپریم جوڈیشل کونسل کے معاملات میں فی الحال کمزوری نظر آئی ہے ۔جج جب ریٹائر ہو جاتے ہیں تو وہ سرکاری کی پنشن لے رہے ہوتے ہین جب وہ جج نہیں رہتے تو مس کنڈکٹ ان کا اس وقت سے متعلقہ ہے ان کے خلاف بعد میں بھی کارروائی ہو سکتی اور اس کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں ہے ،یوسف رضا گیلانی نے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت افتخار چوہدری کو بحال کیا جو غیر آئینی تھا اسی آرڈر کے تحت تقرر کئے جانے والے ججز کے متعلق پارلیمنٹ مناسب وقت پر فیصلہ کرے گی، رولز آف گیم سب کیلئے برابر ہونے چاہئیں ،سپریم جوڈیشل کونسل کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ حکومت عدلیہ سے قطعاًمحاذ آرائی پر نہیں اتر ی ہوئی بلکہ چند مخصوص ججز صاحبان ہیں وہ اپنی اناء کی وجہ سے محاذ آرائی کر رہے ہیں حکومت تو عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ججز کو ایگزیکٹو آرڈر سے نہیں نکالا جا سکتا اس کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترتیب سے دیکھاجائے تو اگست میں نگران حکومت آ جائے گی اور بڑی امید ہے بروقت الیکشن ہو جائیں تو بڑی اچھی بات ہے ۔کیا ایک مخصوص جماعت تحریک چلانا چارہی ہے اگر وہ تحریک کامیاب ہو گئی تو الیکشن اور زیادہ تارخیر کا شکار ہو جائیں گے، اگر انتشار نہ پھیلا یا جائے تو الیکشن ہو جائیں گے،تھوڑا بہت آگے پیچھے ہو سکتے ہیںلیکن ضرور ہوں گے ۔ عرفان قادر نے کہا کہ حکومت ججز کو گرانا نہیں چاہتی بلکہ وہ خود ایک دوسرے کو گرا دیں گے، حکومت تو چاہتی ہے عدلیہ میں تقسیم ختم ہو تاکہ عدلیہ مضبوط ہو سکے،حکومت عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں چاہتی ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جہاں اتنی چیزوں پر سوموٹو نوٹس لئے ہیں وہیں پر القادر ٹرسٹ کے اربوں روپے کے معاملے پر از خود نوٹس لیں جو پیسہ اسٹیٹ بینک کے بجائے سپریم کورٹ کے اکائونٹ میں گیا اس پر کہیں گے کہ اس پر نوٹس لیں۔