انوارالحق کاکڑ

ہم اپنے وسائل بروئے کار لا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں،نگران وزیر اعظم

اسلام آباد ( عکس آن لائن)نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ہم اپنے وسائل بروئے کار لا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں،

انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت ، دفاعی پیداوار اور کان کنی و معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں بے تحاشا مواقع موجود ہیں، سرمایہ کاری کے لئے منصوبے تیار کرنے ہوں گے، ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اقتصادی مواقع کیلئے بیرون ملک منتقلی کو منفی نہیں سمجھنا چاہیے، ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے، پاکستان سے جانے والے پاکستان کا اثاثہ ثابت ہوں گے۔

نگران وزیراعظم نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ نگران حکومت نیآئین کے تحت ایک ایسے وقت میں اقتدار سنبھالا ہے جب ملک کو معاشی چیلنجزدرپیش ہیں۔ نگران کابینہ میں اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین موجود ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مختلف شعبوں میں جن چیلنجز کا سامنا ہے ان سے نبرد آزما ہوا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ یاسیت کی بنیادپر ایک اقتصادی تصویر کشی کی گئی۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا واقعی پاکستان ایسی صورتحال کا شکار ہے جس میں ہمارے سامنے کوئی مواقع نہیں اور خاکم بدہن ہم کسی ناکامی کی طرف سے بڑھ رہے ہیں؟ وزیراعظم نے کہا کہ 70 کی دہائی کے آخر میں اسرائیل میں افراط زر کی شرح ایک ہزار فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ دنیا کے مختلف ممالک اور اقوام نے اس طرح کی مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ، ایسی صورتحال میں لوگ مل کر بیٹھتے ہیں اور مواقع کا جائزہ لے کر صورتحال سے نکلنے کے ذرائع تلاش کرتیہیں۔ ہر ملک اور قوم کی مشکلات مختلف نوعیت کی ہوتی ہیں۔

حال ہی میں قائم کی گئی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل میں چند اہم شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان شعبوں میں ہمارے لئے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ ان شعبوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات اور کان کنی، زراعت اور دفاعی پیداوار شامل ہیں۔ بلوچستان میں چاغی کے قریب 5 ٹریلین یو ایس ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔ان پر کام شروع کرنے کے لئے دوست ممالک کے ساتھ بات چیت حتمی مراحل میں ہے جس کے بعد ان پر کام شروع ہو سکتاہے۔ چلی ، کینیڈا، آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک نے اپنے معدنی وسائل کو بروئے کار لا کر ترقی کی ہے۔

انتہائی شفاف طریقے سے ہم اپنے معدنی وسائل کو بروئے کار لا کر ترقی کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ زراعت میں قدیم طریقے استعمال ہو رہے ہیں۔ ہمارے پاس وسیع زمین اور آبی وسائل موجود ہیں جن کو بروئے کار لا کر بہت بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں ماڈل فارمز کے قیام کا آغاز کیاجا چکا ہے۔ آئی ٹی ،میڈیکل ٹورازم اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں بھی بہت سے مواقع موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

نگران وزیر اعظم نے کہا کہ ان تمام مواقع کو سامنے رکھتے ہوئے غور کیا جا سکتا ہے کہ کیا پاکستان کا مستقبل روشن یا تاریک ہے؟ لیکن پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہو گا۔بجلی بلوں میں ریلیف کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کی محاصل جمع کرنے کی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔پاور سیکٹر سے ان ڈائریکٹ ٹیکسز جمع کئے جا رہیہیں۔

ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ہم نے بڑے بڑے دعوے سنے ، کسی نے ایک قسم کی ریاست بنانے کی کوشش کی اور کسی نے دوسری قسم کی ، لیکن ٹیکس وصولی کے نظام میں بہتری تو درکنار اس سلسلہ میں ابتدا بھی نہیں ہو سکی۔ دنیامیں جتنی بڑی بڑی سلطنتیں گزری ہیں وہ ٹیکس وصول کرنے کی صلاحیت کی بنیاد پر ہی مضبوط ہوئی ہیں۔

ہماری مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے ٹیکس وصولی کی شرح بہت کم ہے جس کی وجہ سے ہم عوام کی فلاح و بہبود کے لئے زیادہ خرچ نہیں کر سکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت آئندہ سے 3 سے 5 سال کے دوران 60 سے 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع کی جا رہی ہے اور اتنی ہی مزید سرمایہ کاری بھی متوقع ہے۔ ہم نے مختلف شعبوں میں منصوبے تیار کر کے ان کے لئے سرمایہ کاری لانی ہے۔ ایس آئی ایف سی کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے کافی معلومات دستیاب ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ ان مواقع سے استفادہ کرنے کے لئے جو ماڈل اختیار کرنے کی ضرورت ہے ہم اسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نگران حکومت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرے گی۔ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے بیرون نقل مکانی ہوتی رہی ہے۔

ہماری آبادی 24 سے 25 کروڑ کے قریب ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں افرادی قوت کو کھپانے کے مواقع موجود ہیں اور لوگ ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اقتصادی نقل مکانی ایک بین الاقوامی عمل ہے۔ پاکستان میں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے کہ مختلف شعبوں کے ماہرین دستیاب نہ ہوں۔ صورتحال کو منفی طور پر پیش نہیں کرنا چاہیے۔ بیرون ملک موجود پاکستانی ہمارا اثاثہ ہیں اور جو آج دوسرے ممالک میں جا رہے ہیں وہ مستقبل میں ہمارے لئے اثاثہ ثابت ہوں گے اور اپنا سرمایہ اور صلاحیتیں پاکستان کے لئے بروئے کار لائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں