محمد عامر خاکوانی
کرونا وائرس کی وبا ایسی خوفناک ہے کہ اس نے محاورتاً نہیں بلکہ عملی طور پر زندگی کا پہیہ جام کر دیا ہے۔ یکا یک لاکھوں ، کروڑوں لوگ اگلے دو ہفتے تک گھروں تک محدود ہوگئے۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میری شعور کی زندگی میں ملک گیر سطح پر کبھی ایسا ہوا ہو۔بہت لوگوں کے لئے یہ بالکل ہی نیا تجربہ ہے۔ چھوٹے شہروں اور قصبات میں بھی لاک ڈاﺅن کی پابندی کرائی جا رہی ہے۔
وہاں کی زندگی پہلے ہی کسی حد تک محدود ہوتی ہے، اب محدود تر ہوگئی۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے گھروں تک محدود رہ کر کروناوائرس کے خطرے سے دور رہنا اور اس سے بھی بڑھ کر چاردیواری میں مقید رہ کرجینا سیکھ لیا ہے؟
بات سادہ ہے۔ ہمارے بیشتر گھروں میں مرد حضرات عام طور سے صبح آٹھ نو دفتر، دکان یا کام والی جگہ چلے جاتے ہیں، واپسی شام کو ہوتی ہے۔آٹھ دس گھنٹے کی ملازمت، دو ڈھائی گھنٹے آنے جانے کے سفر میں گزارنے کے بعد تھکے ہارے گھر پہنچے ۔
کچھ دیر سستائے، نہا دھوکر، کھانا وانا کھا کر کسی نے ٹی وی دیکھا، کوئی باہردوستوں سے ملنے نکل گیا، واپسی پرفوری ڈھیر ہوگئے کہ اگلی صبح جلد اٹھنا ہے۔ اب اچانک ہی سب معمولات تبدیل ہوگئے۔
گھر کے مرد سارا دن گھر پر ہیں اور ان کے ساتھ ہی تمام بچے بھی اسی چاردیواری میں وقت گزارنے کے پابند ہیں۔ سکول، اکیڈمی، ٹیوشن سنٹر بند ہیں، کھیلنے کے گراﺅنڈ ، پارک ویران پڑے ہیں، شام کو ماں باپ کے ساتھ باہر آئس کریم وغیرہ کھانے بھی نہیں جا سکتے۔
کھاتے پیتے ، خوشحال گھرانے ہی نہیں ،لوئر مڈل کلاس فیملیز بھی ہفتے میں ایک آدھ بار کچھ نہ کچھ ہوٹلنگ کر لیا کرتی ہیں۔باہر کھانا کھا لیا، ورنہ آئس کریم، چاٹ وغیرہ کھانے چلے گئے۔
اب ایسا کچھ نہیں ہو سکتا۔ خواتین شاپنگ بھی نہیں کر سکتیں۔سوال یہ ہے کہ زندگی کا یہ پورا پیٹرن اچانک ہی یکسر بدل گیا ہے، ا سکے بارے میں بھی کسی نے کچھ سوچا؟
اخبارات ، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا ….تینوں کا بغور مشاہدہ کر رہا ہوں۔ میڈیا کا عمومی رویہ ذمہ دارانہ ہے، غیر ضروری تنقید کے بجائے عوامی مسائل کو سامنے لایا جا رہا۔ ہر ایک اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا ہے کہ کورونا وائرس کے بارے میں مکمل معلومات دے۔
یہ سب درست ہے،اس کے باوجود مجھے یہ لگ رہا ہے کہ ٹی وی کے آگے چند گھنٹے گزارنے والے لوگ غیر محسوس انداز میں ڈپریشن، چڑچڑے پن اور پژمردگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہر طرف سے اموات کی خبریں، وائرس کی تباہ کاری، انہونی کا خوف، دھڑکا ،پریشانی اور تناﺅ اخبار پڑھنے، ٹی وی دیکھنے ، سوشل میڈیا پوسٹیں پڑھنے والوں کے اعصاب پر سوار ہو رہاہے۔
اعصاب چٹخ رہے ہیں، مزاجوں میں تندی ، تلخی اور لہجے کی کاٹ بڑھ رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ سب کیفیات غیر معمولی حالات میں وارد ہو رہی ہیں ۔ وہ دفاتر نہیں جا رہے،ملنے جلنے، باہر نکلنے پر بھی پابندی ہے،گپ شپ کر کے ریلیکس نہیں ہوسکتے۔
دن بھر گھر تک مقید رہنا پڑ رہا ہے، ایسے میں ہر خارجی ذریعہ سے پریشانی، مایوسی اور خطرے سے آلودہ ہوا اندر داخل ہو رہی ہے۔ہماری عرض یہ ہے کہ کرونا وائرس کے حوالے سے آگہی مہم اپنی جگہ ٹھیک ہے، ضرور چلے ،مگر ان پہلوﺅں پر بھی کوئی نظر ڈالے، حل سجھائے۔ مجھے لگتا ہے کہ اسے دو حصوں میں بانٹنا چاہیے۔
فرد اور مجموعی طور پر گھر۔ انفرادی طور پر لوگوں کو کیا کرنا چاہیے، اپنے آپ کو کس طرح ان مشکل کے دنوں میں تازہ دم، مستعد اور پرسکون رکھنا ہے؟یہ وہ چیز ہے جو آپ کو خود ہی سیکھنے کی کوشش کرنا ہوگی، اس میں معاونت کی جا سکتی ہے، مگر اپنی طبع، مزاج اور عادات کے حساب سے اپنے لئے خود حل نکالنا ہے۔
دوسرا معاملہ گھر کے ماحول اور اجتماعی زندگی کا ہے۔ایک شخص کا غصہ یا چڑچڑا پن پورے گھر کومتاثر کرتا ہے۔ اس لئے گھر کے ماحول کو خوشگوار، آرام دہ بنانے کے لئے سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ خاتون خانہ پر گھر کے حوالے سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، مگران ہنگامی حالات میں صرف عورتوں پر بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔
انفرادی اوراجتماعی طور پرسب سے اہم ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ خود کو اور گھر والوں کواس وائرس سے بچانا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رخ ظہور کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ ہیں، پمز اسلام آباد میں کام کرتی ہیں،آج کل آئسولیشن میں وقت گزار رہی ہیں،انہوں نے دو نہایت عمدہ، عام فہم اور معلوماتی ویڈیوز شیئر کی ہیں۔
لوگوں کو بتایا کہ کس طرح ہر ایک شخص ممکنہ طور پر وائرس کا کیرئر ہوسکتا ہے، اس لئے احتیاط یہ سوچ کر کریں کہ کہیں وائرس میرے اندر آ تو نہیں چکا۔باہر والوں سے رابطہ کم سے کم کردیں، وغیرہ وغیرہ۔
میں نے ویڈیو اپنی مسز سے شیئر کی، کچھ دیر کے بعد ان کا میسج آیا کہ میں نے کام والی مائی کو دس دن کی چھٹی دے دی ہے۔ ڈرائیور کو ہم پہلے ہی چھٹی دے چکے ہیں، مگر کام کے بوجھ کے پیش نظر اہلیہ کام والی کو بادل نخواستہ برداشت کر رہی تھی۔
ڈاکٹر ماہ رخ ظہور کی ویڈیو نے انہیں یکسو کردیا۔ آپ سب بھی اپنے اپنے حساب سے جائزہ لیں کہ کس طرح ہم وائرس کے ممکنہ کیئریر افراد سے دور رہ سکتے ہیں۔
ہم نے اپنے گھر میں اصول بنا دیا ہے کہ جو بھی باہر سے اندر آئے، پہلے گیٹ کے ساتھ لگے واش بیسن پر ہاتھ منہ صابن سے اچھی طرح دھوئے، دودھ والے سے پیکٹ لے کر وہ بھی پہلے دھو لئے جاتے ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے تو یہ یقین بنائیں کہ آپ خود اور گھر کا ماحول کلین ہوچکا ہے۔
اگلا مرحلہ ہے اگلے دو ہفتوں میں چاردیواری کے اندر رہ کر زندگی گزارنے کاہنر سیکھنا۔ سب سے پہلے تو گھر کے مردوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ دفترمیں نہیں گھر میں بیٹھے ہیں اور ان کی یہ موجودگی جبری ہے، گھر کی عورتوں سے قطعی طور پراس کی اجازت نہیں لی گئی۔
اس لئے ہمیں خواتین اور پہلے ہی سکول ، اکیڈمی وغیرہ سے کٹے ، بوریت کا شکاربچوں کی زندگیاں مشکل نہیں بنانی چاہئیں۔ دفاتر، فیکٹریوں، دکانوں وغیرہ پر کام کرنے والے بیشتر مرد دن گیارہ بجے چائے پینے کے عادی ہوتے ہیں۔ دفاتر میںپیون ، بازاروں میں چائے والے جبکہ فیکٹریوں میں کینٹین والے یہ کام کرتے ہیں۔
اگلے پندرہ دن گھر میں گزارنے ہیں تو گیارہ بجے یا چار بجے سہ پہر کی چائے کی امید خاتون خانہ سے کرنے کے بجائے خود ہی بنانے کی کوشش کریں۔یہ سوچ لیں کہ عورتوں پر پہلے ہی کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے۔ جتنے برتن دو تین دنوں میں دھلتے تھے ، وہ اب ایک دن میں دھونے پڑ رہے ہیں۔
بہت سی جگہوں پر کام والی ملازمائیں بھی نہیں آ رہیں یا انہیں چھٹی دے دی گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ اب گھر بھر کی صفائی، پوچا وغیرہ کے ساتھ کپڑے بھی خاتون خانہ کو دھونے پڑیں گے۔ بیشتر مرد حضرات گھر میں برتن دھونا یا صفائی کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔
میرے جیسے سست بھی ہیں جنہیں گھر کے کام کرنے میں اصولی اختلاف تو نہیں ،مگر اپنی نالائقی، مَنھر پن کی وجہ سے وہ یہ کام کر نہیں سکتے۔ ہر دو صورتوں میں بوجھ عورتوں پر آ گیا۔
اس لئے آپ انہیں دوسرے جگہوں پر ریلیف دیں۔کھانے پینے میں نخرے کم کریں، جو بن جائے، اس سے گزارا کریں، معمول کے خلاف کسی سرگرمی کو برداشت کریں۔ کم سے کم فرمائشیں کریں۔سب سے اہم کہ بچوں کو اپنے ساتھ دو تین گھنٹے انگیج رکھ کر ان کی ماں کو کچھ سپیس دیں، سستانے کا موقعہ فراہم کریں۔
میں نے ایک تجربے کے طور پر پانچ سات خواتین سے سوال پوچھا کہ آج کل مجبوری کے عالم میں گھروں میں رہنے والے مردوں کو کیا کرنا چاہیے؟ سب نے ایک نکتے پر زور دیا کہ مرد اپنے کام کاج کی وجہ سے باہر رہتے ہیں اور بچوں کے ساتھ ان کا انٹرایکشن زیادہ نہیں ہوپاتا۔
ان( جبری) تعطیلات میں بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، ان کے ساتھ اپنے تعلق میں گہرائی ، مضبوطی لے آئیں۔ایک صاف گو خاتون نے کہہ ڈالا کہ بچوں کو درود شریف، دعائیں، سورتیں وغیرہ ہم مائیں سکھاتی ہیں،اب موقعہ ملا ہے تو کچھ ثواب والد حضرات بھی حاصل کریں۔مشورہ بالکل درست دیا گیا ہے، اس پر عمل کرنا چاہیے۔
مردحضرات کا ایک فنکشنل فالٹ یہ ہے کہ وہ ہر مسئلے پر اپنی حتمی رائے دینا فرض سمجھتے ہیں، کوئی مسئلہ سامنے آیا تو فوری طور پر اسے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھر میں روزمرہ مسائل اٹھتے رہتے ہیں، انہیں معمول کے مطابق عورتوں کو نمٹانے دیں۔گھر ان کی سلطنت ہے، فیصلے انہی کے چلیں گے۔ آپ سے مدد مانگی جائے تو پھرضرور مدد کریں۔
رضاکارانہ طور پر مشوروں سے گریز فرمائیں، بیبیاں ان سے قطعی متاثر نہیں ہوتیں۔ یہ بات بزرگ افراد کے لئے خاص طور سے اہم ہے۔ ایسے لوگ جو سینئر سٹیزن ہیں یا بننے والے ہیں، روزانہ وہ دکان، آفس یا کام کی جگہ پر چلے جاتے تھے ، آج کل گھر پر ہیں۔
انہیں بھی اپنے لئے نئے مشاغل ڈھونڈنے چاہئیں اور تمام وقت گھر والوں کا ”ھاں“ کھانے سے گریز کریں۔ یاد رہے کہ سرائیکی میں ہاں یا ھاں دل کو کہتے ہیں، ھاں کھانا ایک بہت جامع قسم کی اصطلاح ہے، اس کا ناکافی سا اردو ترجمہ ہے” زندگی اجیرن بنا دینا“ انفرادی طور پر کیا مشاغل اختیار کئے جا سکتے ہیں، اس پر ان شااللہ اگلی نشست میں بات ہوگی۔