واشنگٹن (عکس آن لائن) چین کے انسداد وبا کی پالیسی ایڈجسٹمنٹ کے وقت سے ہی امریکہ کی طرف سے اس پر الزام تراشی اور اس کی ساکھ خراب کرنے کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے۔تین سال قبل اس وبا کے پھیلنے کے بعد سے امریکہ کی پیش کردہ کارکردگیوں میں سے قابل ذکر کارکردگی یہ ہے کہ وہ مختلف مواقع سے فائدہ اٹھا کر “وبا” کو دوسرے ممالک پر حملہ کرنے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے تاہم اس کے نتیجے میں ہمیشہ اس کو خود ہی کو نقصان پہنچا۔ہفتہ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق
اپریل 2020 میں امریکہ میں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی پہلی انتہادیکھی گئی۔ “ماسک”، “چین” اور “مارکیٹ لائسنس” وہ کلیدی الفاظ تھے جن پر امریکی میڈیا نے اس وقت سب سے زیادہ توجہ دی تھی۔تاہم امریکی میڈیا رپورٹس میں چین کی وبائی امراض کی روک تھام کی پالیسیوں کو بدنام کرتے ہوئے ماسک پہننے کی پالیسی کو “آزادی” اور “انسانی حقوق”سے محرومی قرار دیا گیا ۔
امریکہ وبا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔وہ کبھی یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ وائرس چین میں پیدا ہوا اور کبھی کہتا ہے کہ چین میں وائرس کی ایک نئی قسم نمودار ہوسکتی ہے۔
تیسرا ہتھیار، معاشی مسائل پیدا کر کے چین کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش۔ امریکہ نے چین کو بدنام کرنے کے لیے وائرس ٹریسنگ کا استعمال کیا اور اب امریکہ چین کی معیشت کو داغدار کرکے چین کو “الگ تھلگ” کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ صاف صاف کہیں تو بات یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چین کیا کرتا ہے، امریکی سیاستدانوں نے یہی کہنا ہے کہ چین جو کچھ کرتا ہے، وہ غلط ہے.
امریکہ کی نظر میں یہ وبا، صحت عامہ کا کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے مختلف مسائل کے حوالے سے ساز باز کی جا سکتی ہے اور یہ امریکہ ہی ہے جو وبا کی اس دھند سے باہر نکلنے میں دنیا کے راستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔