صادق سنجرانی

نگران حکومت قانون سازی نہیں کرواسکتی، اپوزیشن کا سینیٹ میں احتجاج

اسلام آباد (عکس آن لائن)چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے زیر صدارت ہونے والے سینیٹ اجلاس میں اراکین نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگران حکومت قانون سازی نہیں کر سکتی ہے۔

منگل کو سینیٹ میں موشن پکچرز ترمیمی بل 2023 پیش کرنے کے موقع پر مسلم لیگ (ن) سمیت کئی اراکین نے ایوان میں احتجاج کیا، اراکین کی جانب سے نگران حکومت کے بل پیش کرنے کے عمل کی شدید مخالفت کی گئی، سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ نگران حکومت کا کام قانون سازی کرنا نہیں ہے، ایوان میں بل پیش نہیں ہو سکتے۔انہوںنے کہاکہ نئی روایات نہ ڈالیں، آپ یہ راستہ مت کھولیں، یہ عمل پارلیمان کی بالادستی کے خلاف ہے۔

اس کے جواب میں چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ابھی صرف بل پیش ہونا ہے پھرکمیٹی کو جائے گا، بل منظور بعد میں ہوگا جب دونوں ہاؤس موجود ہوں گے، اس بل کو کمیٹی کو بھیج رہے ہیں۔اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ نگران حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ قانون سازی شروع کردے، یہ بلینکٹ کور نہیں دیا جا سکتا، یہ روایت ملک اور پارلیمنٹ کے مفاد میں نہیں ہے، اس روایت کو آگے مت چلنے دیں۔

اس موقع پر سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ نگران حکومت کا قانون سازی کا مینڈیٹ نہیں ہے، پارلیمنٹ موجود نہیں ہے، آرڈیننس جاری ہونا پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنا ہے، پھر چیئرمین سینیٹ نے نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی سے سوال کیا کہ وزیر صاحب بتائیں کہ آپ کو کیوں جلدی ہے؟مرتضی سولنگی نے جواب دیا کہ آرڈینس کا اجرا آرٹیکل 89 کے تحت حکومت کا اختیار ہے، یہ بل کی صورت میں لازمی طور پر پیش کرنے ہیں،

مرتضی سولنگی کی تقریر کے دوران کورم کی نشاندہی کی گئی، اپوزیشن کے احتجاج اور کورم کی نشاندہی کے باعث بل پیش ہونے کا عمل مکمل نہ ہو سکا بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس جمعہ کو صبح 10:30 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ ایوان بالاکے اجلاس میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کا نجکاری معاملہ بھی زیر بحث آیا ہے جس موقع پر مشیر برائے ہوا بازی ایئر مارشل (ر) فرحت حسین نے کہا کہ ٹینڈر کے ذریعے پی آئی اے کی نجکاری کی جائے۔

سینیٹر ڈاکٹر زرقا سہروردی نے سوال کیا کہ پی آئی اے کے حوالے سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں، ہمارے جہاز باہر انڈونیشیا میں کھڑے ہیں، جرمنی کے حوالے سے بھی بات کی گئی کہ جہاز کھڑے ہیں جن پر لاکھوں ڈالرز خرچ ہو رہے ہیں؟ان کے سوالات پر مشیر برائے سول ایوی ایشن نے جواب دیا کہ جو جہاز ہائر کیے جاتے ہیں ان کا رینٹ ہوتا ہے، یہ جہاز 2015 میں لیے گئے، یہ دونوں جہاز 20 کروڑ ڈالرز کے تھے، ہم نے 2.6 کروڑ ڈالرز ادا کیے ہیں، ایک جہاز واپس آگیا ہے ایک جہاز اگلے ماہ واپس آجائے گا، یہ دونوں جہاز اب پی آئی اے کا حصہ ہیں۔

مشیر برائے ہوا بازی ایئر مارشل (ر) فرحت حسین نے کہا کہ 7 اگست تک پی آئی اے کو نجکاری کی فہرست میں شامل کر لیا گیا تھا، پی آئی اے کی نجکاری کا عمل ستمبر میں نجکاری کمیشن کے سپرد کر دیا گیا ، کابینہ کی منظوری سے تمام پراسیس ہو رہا ہے، 31 دسمبر تک نجکاری کے حوالے سے فریم ورک دیا جانا ہے ، پی آئی اے کی ائیر لائن اور اثاثے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی آئی اے ائیر لائن کی سب سے پہلے نجکاری کی جائے ، پی آئی اے کے اثاثوں کو الگ رکھا جائے گا اور ٹینڈر کے ذریعے اس کی نجکاری کی جائے،

ائیر پورٹ مینجمنٹ پیچیدہ معاملہ ہے، دہلی ائیر پورٹ بھی آؤٹ سورس ہے، سابقہ حکومت کی پالیسی کے تحت 3 ائیر پورٹ کی آؤٹ سورسنگ ہونی ہے، اوپن بڈز کے ذریعے ائیر پورٹ کی آوٹ سورسنگ کی جا رہی ہے۔اس کے علاوہ دوران اجلاس سینیٹر دنیش کمار نے بلوچستان میں بیوروکریسی میں حصہ بھی مانگا، 21 گریڈ کے 116 افسران میں سے صرف دو کا تعلق بلوچستان سے ہے، بیوروکریسی کو لاکھوں روپے صرف الاؤنسز کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں۔نگران وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے معاملہ گزشتہ حکومتوں پر ڈال دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں