خان نے مولانا کی گھاک سیاست کا تیاپانچا کر کے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا سکہ بٹھا دیا
عبدالستار ہاشمی
مسٹی کوپیلاندا امریکن بیلے ڈانسر ہیں اور انہیں امریکن بیلے تھیٹرنے امریکا کی پرنسپل ڈانسر کا اعزاز بخشا ہے۔ وہ امریکی تاریخ میں ڈانس کے حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔ خوبصورت ڈانس کے ساتھ خوبصورت گفتگو ان کی شخصیت کا خاصا رہا۔ ایک جگہ وہ کہتی ہیں کہ’’ دنیا میں ہر چیز ممکن ہے لیکن اس کے لیے آپ کو صحیح لوگوں کا ساتھ نصیب ہونا جروری ہے، یعنی آپ کی ورکنگ ٹیم فعال، ایماندار اور پُرجوش ہو۔ مسٹی کوپیلاندا کا یہ قول دنیا کے ہر شعبہ زندگی پر فٹ بیٹھتا ہے، اسے اگر پاکستان کے سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ڈیرھ برس گزارنے کے بعد پاکستانی وزیراعظم اپنے تمام جوش ولولے اور اچھے مستقبل کے سپنوں کے باوجود باری النظر ناکام نظر آرہے ہیں اور اس ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ان کی ٹیم کا با صلاحیت نہ ہونا ہے۔ عمران خان ایک دیوملائی کردار کی طرح پاکستان کی سیاست پر اس وقت ابھرے جب انہوں نے اکتوبر 2011 میں لاہور میں ایک عظیم الشان جلسے میں نئے پاکستان کی بنیاد رکھی تو اس موقع پرعوام سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے نظام اور کرپشن سے لدے بوسیدے سسٹم کو ختم کرنے کا سنہری خواب دکھایا تھا۔ لوگوں نے عمران خان کے اس وژن کو سر آنکھوں پر بیٹھایا اور ان کی جدوجہد میں ان کا بھرپور ساتھ دیا، یہاں تک کہ 2018ء کے انتخابات میں کامیابی دلا کر انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیا۔ عمران خان پر عمرام کے اس بھروسے کی لاجک حقیقت پر مبنی ہے اور وہ لاجک یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے یہاں برسرِ اقتدار آنے والی تمام حکومتیں عوام کو روشن اور سنہرے مستقبل کے خواب دکھا کر ان سے قربانیاں طلب کرتی رہی ہیں۔ عوام بھی اپنے بچوں کی فلاح اور مستقبل کی کامیابیوں کی خاطر یہ قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ ہر حکمران کی آواز پر لبیک کہتے رہے ہیں لیکن یہ وعدے اور خواب محض دکھاوے کی کاروائی تھی، طفل تسلیاں تھیں اور یہ کہ انہوں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ عوام سے قربانیاں لے لی گئیں لیکن اس کے بدلے میں نہ تو ان کا حال سدھارنے کی کوئی ٹھوس کوشش کی گئی اور نہ ہی ان کے مستقبل کو روشن بنانے کی کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی۔ہمارے ملک میں ہر حکومت مہنگائی کم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں کے ساتھ برسرِ اقتدار آتی ہے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے یعنی عوام آمدن اور قوتِ خرید کا احساس کئے بغیر ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں کہ مہنگائی کئی گنا بڑھ جاتی ہے اورا سی شرح سے غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اسی نکتے کو لے کر لوگوں نے وزیرِ اعظم عمران خان سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی تھیں کی ماضی میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں کی جاتی رہی ہیں، اس کا ازالہ کیا جائے گا لیکن ہوا اس کے بر عکس۔یہ جو اس کے بر عکس ہوا،اس کی بنیادی وجہ وہ لوگ ہیں جو اس ملک کے اس بوسیدہ نظام کی بساط لپیٹنے کے خلاف ہیں،عمران خان نے ایسے لوگوںکی سیاسی دکانداریاں بند کر دی ہیں۔مولانا کا کردار دیکھ لیں۔کس طرح اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے تھے جیسے عمران خان اپنا استعفی لیے بیٹھے ہوں اور آتے ہیں مولانا کے حوالے کر دیں گے۔جس میچورٹی سے خان نے مولانا کے غبارے سے ہوا نکالی وہ ایک زیرک سیاست دان کی صفت ہی ہو سکتی ہے۔ خان نے مولانا کی گھاک سیاست کا تیاپانچا کر کے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا سکہ بٹھا دیا۔
عمران خان صاحب نے مسلسل احتجاجی سیاست ، روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی گھنٹوں کی کوریج اور بھر پور دعوئوں ، اعلانات کرنے اور یہ تاثر قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی کہ تحریک انصاف کی زبردست تیاری ہے ، بڑی قابل ٹیم اور ماہرین موجود ہیں ، عمران خان کی شخصیت اور گلیمر پوری دنیا کو مسخر کردے گا۔ اسی لیے عوام کو بھی بڑی امیدیں لگ گئیں۔ پھر کیا ہوا؟100 دن گزرے ، چار ماہ اور گزر گئے،اس دوران ماضی کی حکومتیں کرپٹ تھیں اور ان کی چھوڑی ہوئی مشکلات کا تکرار جاری رہا۔ لیکن کوئی حل نہ ملا نہ ہوا،لوگ کہنے پر مجبور ہوئے کہ تحریک انصاف حکومت چلانے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ کنٹینرسیاست سے باہر نہیں آرہی ، صرف قائدین ہی نہیں پوری ٹیم فخر اور تکبر و غرو ر کی دلد ل میں گھر گئی ہے اسی لیے عوام میں مایوسی و ناامیدی تیزی سے بڑھتی گئی ہے ۔لوگ حیران ہیں کہ حکومت ، سیاست اور ریاست کے طاقتور ایوان ایک پیج ، ایک لہر میں ہیں پھر بھی خوفناک اقدام ، مشکلات کیوں بڑھتی جارہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان حکومت ناکامی سے دوچار ہے؟ آئیے پہلے اسے بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ناکامیاں
1:ریاست مدینہ طرز کا نظام لانے کا بار بار اعلان ہوا ،عملاً اس جانب کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔یہ دعوی صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ آئین کے رہنما اصول ، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو سرے سے نظر انداز کیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ والی زبان بھی استعما ل نہیں کی گئی۔ریاست مدینہ نظام کا بس نعرہ ہی لگایا ، اس طرف کسی پیش رفت کے لیے تیار نہیں اس لیے نظریاتی محاذ پر حکومت کی بڑی ناکامی عیاں ہے۔
2:توقع تھی کہ قومی عوامی معاملات پارلیمنٹ میں ڈسکس ہوں گے اور ان کا حل بھی اسی فورم سے آئیگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وزراء ایوان میں نہیں آتے اگر آتے ہیں تو تیاری نہیںہوتی،ان کی تقریروں کا محور اپوزیشن کے اراکین پر طنز کے تیر چلانا ہوتا ہے۔ سارا زور خطابت پر ہوتا ہے جو جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ یوں گزرا ایک سال ، عمران سرکار پارلیمانی جمہوری روایات کو مستحکم نہیں کر سکی۔
3: توقع تھی کہ عمران خان اپنے اعلان کے مطابق حکومتی اداروں کو سیاسی عدم مداخلت اور میرٹ پر چلائیں گے لیکن اس میدان میں بھی حکو مت ناکامی سے دوچار ہے۔یہاں تو تبادلوں کی منڈی لگی ہوئی ہے،ایک وزیر کسی چہتے کا تبادلہ کروا کے ابھی گھر نہیں پہنچتا کہ دوسرا وزیر اپنے کسی لاڈلے کی پوسٹنگ کرا کے یہ جا وہ جا۔ وفاقی سیکرٹریز ، آئی جی پولیس ، صوبائی سیکرٹریز ، حتیٰ کہ ہر سطح پر سرکاری اہلکاروں کی تقرری ، تنزلی کی دوڑ میں سارا سام بیت گیا۔حکومت تو نوکر شاہی پر اپنے نکمے پن کی وجہ سے دھاک نہیں بٹھا سکی اس لیے افسران کو حکومت سے کوئی ڈر اور خوف نہیں لیکن نیب کے طریقہ کار اور رویوں نے مکمل بریک لگادی ہے اسی لیے بیوروکریسی محاذ جام ہے ، عوام انتہائی پریشان ہیں۔
4: یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عوام میں تاثر گہرا ہے کہ حکومت سلیکٹڈ احتساب کر رہی ہے۔ اپوزیشن یا حکومت میں کوئی بھی بڑے سے بڑا فرد ہو ، احتساب سے بالاتر نہیں۔ احتساب سب کا ضروری تھا کہ پانامہ پیپرز میں شامل تمام ناموں ، نیب کے پاس 150 میگا سکینڈلز ، قرضے معاف کرانے والوں کی فہرستوں کا بڑا شور ہوا ، منی لانڈرنگ کی تفصیلات اور ہنگامہ کھڑا ہوا لیکن احتساب کے ان تمام دائروں کو فعال نہیں کیا جاسکا اسی وجہ سے نیب ، ایف آئی اے ، ریاستی ادارے منفی پراپیگنڈہ کی زد میں ہیں۔
5: ان تمام امیدوں پر پانی پھر چکا ہے جو لوگوں نے اس حکومت سے باندھ رکھی تھیں ، اب کشکول بڑا ہوگیا ، قرضوں کا حجم بڑھ گیا ، سود کی لعنت اور گہری اور شرح بڑ ھ گئی جس کا نتیجہ ہے کہ مہنگائی کا جن بے قابو ، بے روزگاری عام ہو رہی ہے ، افراط زر انتہائی بڑھا کہ عوام کی قوت خرید ختم ہوگئی ، صنعت کا پہیہ جام ، کاروبار ٹھپ ، عدم حکمت کی وجہ سے ہر طرف خوف ہی خوفہے۔ فائلرز کی تعداد بڑھائی گئی لیکن محصولات میں خوفناک کمی واقع ہوگئی۔ سب سے بڑھ کر یہ عجب تماشا ہوا کہ قتصادیات پر آئی ایم ایف کی ٹیم مسلط کر دی گئی۔ روپے کی قدر کم ، ڈالر کی اونچی اڑان ، سٹاک ایکسچینج میں بے یقینی سے اربوں کھربوں روپے غرق ہو گئے۔ درآمدات برآمدات میں فرق کی کمی واقع ہوئی لیکن برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے قومی معیشت کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ تیل ، گیس ، بجلی ، ٹیکسوں کا ٹیرف اس قدر بڑھ گیا کہ کسی کے لیے بھی قابل برداشت نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ حکومت اقتصادی محاذ پر بھی بری طرح ناکام ہے۔
6:حکومت نے اپنے اقتدار کے پہلے ہی دن سے نریندر مودی سے توقعات باندھیں ، یاری لگانے کا ہر جتن کیا ، سفارتی محاذ پر مسئلہ کشمیر کے لیے دوٹوک قومی پالیسی نہ بنی اور نہ ہی کوئی روڈ میپ بنا۔اس طرحہماری سفارت کاری و انٹیلی جنس ناکام ہوئی ، اب پوری قوم مسئلہ کشمیر پر متحد اور یک آواز ہے لیکن حکومت ایک تقریر کے بعد خاموش ہے۔
ناکامی کی وجوہات
جس دن اسد عمر کی وفاقی کابینہ سے الگ کر کے آئی ایم ایف کے ملازمین کو لا کر بیٹھا دیا گیا ہے،اسی دن اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ حکومت کن کے اشارون پر چل رہی ہے۔یہی نہیں بلکہ یہ بھی صاف نظر انے لگا ہے کہ یہ حکومت بروقت درست فیصلے کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، لیکن شاید اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب سٹیٹس کو کی یہ طاقتیں جو حکومت کے اندر ہی موجود ہیں عمران خان کے ایجنڈے اور تبدیلی کیلئے ان کی جانب سے اصلاحات کو ناکام بنانے کیلئے ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صحت، پانی اور بجلی کے وزرا اور ان وزارتوں کے اعلیٰ افسران وزیر اعظم کے ساتھ غلط بیانی کر کے انہیں گمراہ کرتے رہے ہیں، یہ لوگ بجلی اور گیس کی مہنگائی کا دفاع کرتے ہوئے عجیب و غریب ہی نہیں بلکہ انتہائی ناقابل فہم اور غیر عقلی دلائل بھی پیش کیے ، ان حکومتی لوگوں میں اسد عمر، عمر ایوب اور غلام سرور خان بھی شامل تھے، اسی طرح حال ہی میں جب ادویات کی قیمتوں میں تقریباً دگنا اضافہ کر دیا گیا تب بھی ایسے ہی بے سر و پا دلائل پیش کیے گئے۔
سوال یہ ہے کہ ان وزرا نے ایسا کیوں کیا ؟ کیا انہوں نے خود کو جان بوجھ کر طاقتور بیوروکریسی ( یا بابوکریسی) کے رحم و کرم پر چھوڑدیا یا پھر بیوروکریسی نے انتہائی چالاکی کے ساتھ انہیں اپنے مضبوط شکنجے میں جکڑ لیا، دونوں میں سے جو بھی صورت رہی ہو، یہ بات طے شدہ ہے کہ حکومت کے ان اقدامات سے عوام کا بہت بڑا حصہ متاثر ہوا یہاں تک کہ ان کیلئے اپنے گھریلو بجٹ کو سنبھالنا ناممکن ہوگیا، دوسری اہم بات یہ ہے کہ فواد چودھری کو جو پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا گیا ہے، یہ نشاندہی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ برسراقتدار آنے سے قبل عمران خان سابقہ حکومتوں کی اس روش پر بھی شدید نکتہ چینی کرتے تھے کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو بعض شعبوں میں اہم ذمے داریاں سونپی ہیں جنہیں ان شعبوں کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہیں، کیا فواد چودھری کو وزیر سائنس و ٹیکنالوجی مقرر کرنے کے بعد اب یہی اعتراض موجودہ حکومت پر نہیں کیا جاسکتا ؟ تیسری لیکن بہت اہم بات یہ ہے کہ اب عمران خان کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کی اکثریت ن سب باتوں سے عاجز آچکے ہیں، عوام کا کہنا ہے کہ وہ عمران حکومت کی اہلیت کا فیصلہ سابق حکمرانوں کی بد اعمالیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ عمران خان اور ان کی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر کریں گے۔
کامیابیاں
عمران خان کے اقتدار کی کچھ اہم خوبیاں اور خامیابیاں بھی ہیں جنھیں شاید اب تک سمجھا نہیں گیا یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی جارہی جبکہ ان کامیابیوں کو بلاشبہ پاکستانی سیاست کا اہم سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔
:1 نریندر مودی نے 5 اگست کو اپنے پاوں پر کلہاڑی مارلی اوراس موقع سے وزیراعظم عمران خان نے فوری اور بھرپور فائدہ اٹھایا اور مسئلہ کشمیر کو دنیا کے ہر قابلِ ذکر اور اہم فورم پر نہ صرف اجاگر کیا بلکہ وہ اس میں اس حد تک کامیاب ہوگئے کہ عالمی برادری یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ کشمیر میں واقعی بھارت ظلم کررہا ہے،70 برس سے بھارت کے اس موقف کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے کی مکمل نفی ہوگئی مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر عالمی مسئلہ قرار دلوانے میں عمران خان کے کردار کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔اقوام متحدہ میں ان کی تقریر تاریخی تقریر تھی جس پر بھارت ابھی تک تلملا رہا ہے۔
:2عمران خان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کا واحد راستہ مذاکرات ہے امریکہ اسے فوجی طریقے سے کسی صورت حل نہیں کرسکتا، شاید یہ عمران خان کی باتوں کا ہی اثر تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوحہ میں افغان طالبان سے مزاکرات کا آغازکیا ،پاکستان کی کوششوں سے اس عمل کو نہ صرف دوبارہ شروع کیا جارہا ہے بلکہ پاکستان کا اس میں اہم کردار بھی اجاگر ہورہا ہے، اب امریکہ افغانستان سیاپنی فوجوں کے انخلاء پر بھی راضی ہے اسسے امید بندھ چلی ہے کہ افغانستان میں قیام امن سے مغربی سرحدوں پر تعینات پاکستان افواج کو بھی ریلیف ملے گا اورپاک فوج مکمل طورپرمشرقی سرحد پر بھارتی شرانگیزیوں پرتوجہ مرکوزکرسکے گی۔
3:پاکستان کے ازلی دشمن انتہا پسند بھارت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ وہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کردے اس ضمن میں اس کی متعدد کوششیں کامیابی کے قریب بھی پہنچیں اور ان کوششوں کو کامیاب بنانے میں پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ساتھ ہی بھارت نیاربوں ڈالرزلگا کرافغانستان میں اپنا اثررسوخ بڑھا کر پاکستان کیخلاف نفرتیں بیدار کرنے کی کوششیں کیں، دہشت گردی کے واقعات کروائے لیکن اب یہ بازی الٹی ہورہی ہے، افغانستان میں قیام امن کے عمل کی وجہ سے بھارت کا وہاں کردار اور سرمایہ کاری شدید متاثر ہورہی ہے، پھر مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی وجہ سے عالمی برادری بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ کی مارکیٹ کے اثرات سے نکل رہا ہے، امریکہ برطانیہ، روس، چین، فرانس، جرمنی برملا کہنے لگے ہیں کہ بھارت کی مارکیٹ بہت بڑی صحیح لیکن اس کی وجہ سے بھارتی مظالم سے نظریں نہیں چْرائی جاسکتیں۔ ان امور کے علاوہ، چین سے پاکستانی کی دوستی میں استحکام، روس سے تعلقات کی بحالی اور ایران سے مستحکم ہوتے تعلقات نے بھارت کو بوکھلاہٹ کا شکارکردیا ہے
4:عمران خان کی 100دن کی کارکردگی ایک طرف اور کرتارپور راہداری کھولنے کا امیدافزا اور جراتمندانہ اقدام ایک طرف۔اگرچہ ہندوستان سے پاکستان کے تعلقات قدر ے تلخ اور حوصلہ شکن ہیں اور جس دن پاکستانی وزیراعظم نے کرتار پور راہداری کا افتتاح کیا تھا اس دن بھی جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کیا تھا لیکن پاکستان نے ایک بار پھر اقوام عالم کے سامنے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان امن عالم کا خواہاں ہے اور اپنے سارے جملہ مسائل کاحل مذاکرات کی میز پر چاہتا ہے۔
5: موجودہ حکومت نے ڈچ حکومت پر دبائو ڈالا اور بار بار احتجاج کیا جس کے بعد 30اگست کو ڈچ حکومت نے نبی کریم کے حوالے سے ہونے والا گستاخانہ مقابلہ منسوخ کردیا جسے عالمی سطح پر پذیرائی ملی۔معاشی عدم استحکام کے مقابلے کے لیے آئی ایم ایف کی بجائے پہلی بار کسی وزیراعظم نے دوست ممالک سے تعاون لیاجس کے نتیجے میں سعودی عرب،چین،متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا جیسے دوست ممالک نے حق دوستی اداکرتے ہوئے پاکستان کے خسارے کو کم سے کم کیا۔ امید کی جارہی ہے کہ اپریل2019ء میں پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔
ناتجربہ کار حکومت کے پہلے چند ماہ تو حکومتی کرسیوں کی ’’الف ب‘‘کو سمجھنے میں لگ جاتے ہیں۔اگر ہم اس حکومت کا پچھلی حکومتوں سے موازنہ کرکے دیکھیں خصوصاََ پہلے چند ماہ کے ساتھ تو تصویر کچھ دل کو بھاتی ہے۔ناتجربہ کاری،کچھ غلطیاں ،کچھ غلط انتخاب اور کچھ جگہ پربے جا بول کر بھی وزیراعظم عمران خان نے امید کی شمع کو ابھی تک جلائے رکھا ہے۔عمران خان کے مخالفین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ بندہ بذات خود کرپٹ نہیں ہے۔اس کی سلیکشن، بندے کا انتخاب غلط ہوسکتا ہے لیکن اس کے پیچھے اس کی نیت و خلوص جو ظاہر ہوتا ہے وہ غلط نہیں ہے۔
حاصل بحث یہ ہے کہ پاکستان کے اس بوسیدہ نظام میں کسی فرشتے کو بھی حکومت سازی کی دعوت دی جائے تو وہ گڈ گورننس لے لے کر معاشی و معاشرتی حالات کی بہتری میں ناکام نظر آئے گا۔ عمران خان کا قصور یہ ہے کہ وہ اس نظام کو بدلنے کا سنہرا خواب لے کر سیاست میں آئے تھے لیکن فی الوقت ناکام ٹھہرے۔ ان کی نیت اور ارادے پر کوئی شک نہیں وہ پاکستان کی تیسری سیاسی قوت بنے اور پہلے پر فائز ہوئے، لیکن مسٹی کو پیلاندا کے بوقل کامیابی کے لیے ایک مستند فعال ایماندار اور قابل لوگوں پر مشتمل ٹیم درکار ہے جو انہیں میسر نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ نظام کو یکسر پلٹنے اور بدلنے سے پہلے عوام کی معاشی حالت کو بہتر کیا جائے، گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ عوامی بہبود اور خاص طور پر مہنگائی کے خاتمے کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنایا جائے تو عمران خان کا خواب پورا ہو سکے گا، ورنہ اس کی ٹیم کے اراکین تو ٹماٹر 17 روپے اور مٹر 5 روپے کلو فروخت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ جہاں سبزیاں بیچنے والے اس ملک کی معاشی پالیسیوں اور حکومتی اقدامات کی ترجمانی کریں گا، وہاں حالات کبھی بہتری کط فر نہیں جا سکتے۔